واشنگٹن (نوائے وقت رپورٹ) سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ حسین حقانی نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کہ ٹرمپ کو پتہ ہے ان کے اختیار کی کیا حدود ہیں۔ زبان کے تیز ہیں لیکن کسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کر پائیں گے۔ امکان ہے وہ ٹیکس کے معاملے میں مختلف پالیسی اختیار کریں گے۔ وہ میرٹ کے قائل ہیں کوٹے کے نہیں۔ وہ امریکہ میں امیگریشن کو محدود کرنے کے قائل ہیں۔ ٹرمپ اسرائیل کے جوبائیڈن کی طرح حامی ہیں۔ تاہم وہ جنگ بندی کی کوشش ضرور کریں گے۔ اس میں رکاوٹ نیتن یاہو ہیں۔ جو کہتے ہیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی بات نہیں ہونی چاہئے۔ دیکھنا ہو گا کہ کیا وہ اسرائیل پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ متعلقہ پارٹیوں کا مفاہمت کیلئے تیار ہونا ضروری ہے۔ کیا پوٹین یوکرائن کا ایک حصہ لے کر جنگ ختم کر دیں گے یا نہیں؟ ان کا خیال ہے کہ چین کو معاشی طور پر محدود کیا جائے۔ ایران پر وہ زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالیں گے۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم سے بات کریں گے۔ انہوں نے پوری انتخابی مہم میں پاکستان کا نام نہیں لیا۔ وہ داعش خراسان کے خاتمے کے لئے کچھ کر سکتے ہیں۔ ممکن ہے وہ اس معاملے میں پاکستان کی عسکری قیادت سے معاملہ طے کریں۔ سیاست میدان میں ہونی چاہئے۔ پاکستانیوں کا امریکی انتخابات پر اثر نہیں پڑتا۔ ایک لیڈر جو کہتا ہے کہ ہم امریکہ کے غلام نہیں بننا چاہتے اس کیلئے ٹرمپ کو کیوں دلچسپی ہو گی، البتہ اقتدار میں آنے کے بعد اگر امریکہ کے مفادات کیلئے کام کریں گے تو کچھ ہو سکتا۔ زلفی بخاری یا دیگر لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں مجھے ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ امریکہ کا سیاسی فیصلے کرانے کا پراسیس ایسے نہیں چلتا۔ جو امریکی سینیٹرز نے خطوط لکھے اس کا معاملہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بے نظیر کیلئے بھی ضیاء الحق کو خط لکھے۔ آصف زرداری کیلئے بھی خط لکھے گئے تھے اب بانی پی ٹی آئی کیلئے لکھے ہیں ان خطوط کے بارے میں امریکہ کے کسی اخبار میں خبر تک نہیں آئی۔
لیڈر کہے‘ امریکہ کے غلام نہیں‘ تو ٹرمپ کیوں دلچسپی لے: حسین حقانی
Nov 25, 2024