صدر مملکت آصف علی زرداری ملکی سیاست میں اپنا نمایاں مقام رکھتے ہیں اور انہیں مفاہمت کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ کراچی میں پیدا ہونے اور بتدائی تعلیم کراچی گرامر اسکول، سینٹ پیٹرکس اسکول اور کیڈٹ کالج پٹارو سے حاصل کرنے والے آصف علی زرداری انتہائی زیرک سیاستدان ہیں۔انہوں نے 2007 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی اور 2008 میں صدر مملکت کے عہدے پر فائز ہوئے۔آصف زرداری نے پی ڈی ایم حکومت کے قیام میں کردار ادا کیا، تاہم کوئی عہدہ نہیں لیا، 2024 کے انتخابات کے بعد آصف زرداری نے صدر مملکت کیلئے حکومتی اتحاد کے متفقہ امیدوار کے طور پر انتخاب لڑا اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر دوسری بار صدر بنے۔
صدر آصف علی زداری ملک کی بہتری کے لئے ہمیشہ سے یہ کہتے آئے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف پاکستان کے بارے سوچنا چاہیے۔ صدر زداری کہ یہ کہنا ہے کہ ’پاکستان کو آگے لے جانا ہے تو اس سلسلے میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کو جمہوری اور آئینی ذمہ داری نبھاتے ہوئے وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کو مقدم رکھنا ہے۔‘اپنے گزشتہ دور حکومت میں جس بلوچستان پیکج کا آغاز کیا تھا اس پر بھی آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ آغاز حقوق بلوچستان جہاں چھوڑا تھا وہاں سے ایک بار پھر بلوچستان کی تعمیر و ترقی کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ جسے ملک کے سنجیدہ دانشور حلقوں کی جانب سے خوش آئند قرار دیا جارہا ہے۔ پنجاب میں بڑھتی نفرت اور ملک دشمن عناصر، تعلیمی اداروں میں کھلی مداخلت کے حوالے سے اور بنجر زمینوں کو سر سبز کرنے، کسانوں کو انکا جائز حق دینے، مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافے کا اگر کسی کے پاس کوئی حل ہے تو وہ صرف صدر آصف علی زرداری کے پاس ہے، وہ بحیثیت صدر پاکستان حکومت اور مملکت کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے موجود سیاسی قیادت میں سب سے زیادہ تدبر اور فکر رکھنے والے شخص ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے ہر کارکن سمیت ملک کے دیگر حلقوں میں بھی یہ سمجھا جاتا ہے کہ آج ملک اگر پھر پڑی پر چڑھ کر آگے بڑھ رہا ہے تو اس میں بھی صدر آصف علی زرداری کا مفاہمتی فارمولہ ہی کام کر رہا ہے وہ اپنے انتہائی مخالفین کو بھی ساتھ لیکر چلنے کا ہنر جانتے ہیں، یہی وجہ سے کہ ملک میں مفاہمت کا ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے۔ جس سے سیاسی استحکام اور معاشی استحکام کے دروازے کھلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
صدر آصف علی زرداری پورے ملک کو جوڑنے کیساتھ ساتھ تمام سیاسی قیادت کو جوڑتے نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی سے ملک کے خلاف جو سازشیں شروع ہوئی تھیں ان کا خاتمہ صرف اور صرف باہمی اعتماد اور اتحاد میں ہے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مفاد پرستوں نے ملک اور معیشت اور سماج کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہ ہی وجہ تھی 2008 میں بھی پی پی پی نے حکومت بناتے ہی تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا تھا، کیوں کہ پی پی پی اس ملک میں امن، محبت اور اتفاق کی سیاست چاہتی ہے، جہاں کوئی سیاسی قیدی کسی کی سیاسی نفرت کے انتقام کا ایندھن بن کر جیلوں میں نہ جائیں، یہ ہی شہید بینظیر بھٹو کا خواب تھا، جسے آصف علی زرداری نے 2008 ء اور 2013ء میں بھی عملی جامہ پہنایا اور اب ایک بار پھر تاریخ اپنے آپ کو دہراتی نظر آرہی ہے۔
ماضی کے ادوار میں بھی بحیثیت صدر پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف ریشہ دوانیاں نہ کی جاتیں ان کے ویڑن کے مطابق کام کرنے دیا جاتا،بے بنیاد اور جھوٹے پروپیگنڈے کا سہارا نہ لیا جاتا تو آج پاکستان کے حالات یقینی طور پر مختلف ہوتے۔ صدر آصف علی زرداری نے اپنے سابقہ دور میں نیشنل فناننس کمیشن کے ساتھ ساتھ صوبوں اور وفاق کے درمیان بیشتر معاملات حل کرواکر اور 18ویں ترمیم دے کر جس طرح وفاق پاکستان کو مضبوط کیا، اور انہوں نے پاکستان چین راہداری کی بنیاد رکھی، اسکے نتیجے میں پاکستان اور چین کا پہلے سے مضبوط رشتہ مزید مضبوط ہوگیا اور چین پاکستان کیساتھ ہر کڑے وقت میں ساتھ کھڑا رہا کیوں کہ چین کا آج جتنا اسٹیک پاکستان میں ہے شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہو اور یہ پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کی دلیل ہے جس کا سہرا صدر آصف علی زرداری کو جاتا ہے۔ اور اب 26 آ ئینی ترامیم کے منظور ہونے سے ایک بار پھر ان کی مفاہمتی پالیسی کی داد ہر طرف سے دی جارہی ہے۔
پاک ایران گیس پائپ لائن میں جو تعطل آیا تھا اب پھر آصف علی زرداری ان رکاوٹوں کو دور کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں، تاکہ پاک ایران گیس پائپ لائن پر کام مکمل ہو اور پاکستان کو توانائی کے شعبے میں مالی خسارہ نہ اٹھانا پڑے۔ آصف علی زرداری بحیثیت صدر پاکستان تمام صوبوں کو ایک میز پر بٹھانے میں بھی کامیاب رہے ہیں، سیاسی اختلاف رائے کے باوجود تمام سیاسی جماعتیں ان کے دور میں قومی مسائل پر ایک ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔ اس وقت پاکستان کو ایک بار پھر دہشت گردی کے چیلج کا سامنا ہے لیکن صدر آصف علی زرداری اپنے فہم و تدبر سے اس چیلج سے بھی ملک کو نکالنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے نظر آئیں گے، ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ پاکستان کیلئے آنیوالا دور سنہری ہوگا کیوں سیاسی عدم استحکام ہی ہماری جڑیں کھوکھلی کررہا ہے۔
ادھر صدر مملکت آصف علی زرداری نے ضلع کْرّم میں مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے قومی نقصان قرار دیتے ہوئے فتن? الخوارج کے مکمل خاتمے تک سیکورٹی فورسز کی جانب سے کاروائیاں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔انہوں نے بلوچستان میں بھی دہشتگردوں کے خلاف کامیاب انٹیلی جنس پر مبنی کاروائیوں پر سیکورٹی فورسز کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔صدر مملکت نے آواران، ڈیرہ بگٹی اور کیچ میں دہشتگردوں کے خلاف کاروائیوں پر سیکورٹی فورسز کو سراہا ہے سیکورٹی فورسز نے بلوچستان میں مختلف کاروائیوں میں 4 دہشتگردوں کو بہادری سے جہنم واصل کیا تھا انہوں نے کہا ہے کہ دہشتگردوں کو بلوچستان اور پاکستان کا امن و امان خراب کرنے، ترقی کا سفر متاثر کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک دشمن عناصر کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
مفاہمی سیاست اور دہشت گردی کے خاتمے کے خلاف صدر زرادری کا عزم
Nov 25, 2024