پاکستانی معیشت، سیاست، سماج، قومی اداروں کے زوال بر بادی میں حکمراں برابر کے شریک ہیں۔ پاکستان کی عالمی برادری میں وقارصرف ہماری بہادر مضبوط اور محب وطن افواج پاکستان کی وجہ سے ہے۔ ھماری ریاست کے محافظ دفاعی ادارے میں جہاں چند غیر ذمہ دار جرنیل ہیںوہاں دیانت دار، صوم و صلوۃ کے پابند جرنیلوں اور سینئر فوجی افسروں کی بھی کمی نہیں ہیں۔ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے ایران، بھارت، افغانستان کے بیچ واقع ہمیشہ غیر یقینی، خطرناک اور غیر محفوظ صورتحال کا سا منا کیے ہوئے ہیں۔ یہ ہماری بہادر افواج کے غیرمتزلزل عزم، حوصلے، بے مثال بہادری اور جراتوں کے کرشمے ہیں کہ کمزور معیشت، ہمہ وقت داخلی غیر یقینی سیاسی صورتحال، خارجی خطرات کے ممکنہ صورتحال کے باعث مضبوط فوج کی لازوال، بے مثال قربانیوں، اور حب الوطنی کے پیش نظر بفضل خدا محفوظ و مامون ہے۔ ایک زمانہ تھا۔ بلکہ قیام پاکستان کے بعد جب ھماری قومی ایر لائن پی آئی اے قائم ہوئی۔ تاہم محدود وسائل، اور درون ملک بے مثال قومی جذبے، حب الوطنی کے پیش نظر اور دستیاب بہترین اذھان کے سبب پاکستان انٹر نیشنل ایر لائن نے بتدریج ارتقائی منازل طے کئے- پاکستان انٹر نیشنل ایر لائین کو جدید،مضبوط اور باکمال قومی ایرلاین بنانے میں جہاں سول افسروں، ہوا بازوں (پائلٹوں) کے شبانہ روز محنت، لگن اور قومی جذبے نے بے مثال کردار ادا کیا۔بلکہ اس میں پاکستان ایر فورس یعنی پاک فضائیہ کے شاہین صفت ہوا بازوں، انجینیروں اور تکنیکی ماہرین نے بھی پی آئی اے کو جدید،مضبوط، اور اعلیٰ معیار کی ایر لائن بنانے میں اپنا شاندار جاندار، حصہ ڈالا، چار عشروں سے زائد عرصہ قبل یعنی1980 میں جب یہ خاکسار کمسنی کے دور سے گزر رھا تھا۔ ہماری قومی ایر لائن دنیا کے جدید ترقی یافتہ ممالک کے ایر لائن کے، عالمی خدمات، معیار،سے کسی طرح بھی کم نہ تھا۔ پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ایر لائن میں ھوتا تھا۔ خوش قسمتی سے اور غالباً اگر خاکسار غلطی پر نہیں۔ ہماری قومی ایرلائن کا پہلا ہوا باز ضلع صوابی کے علاقہ باغیچہ ڈھیرئی سے تعلق رکھتا تھا – کپتان میاں فضل غنی نے غالباً 1962 ء میں ہماری قومی ائیرلائن جوائن کیا۔کیپٹن فضل غنی کا شمار پی آئی اے کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ جس کی تکنیکی، اور فضائی مہارتوں کے پاکستان کے فوجی اور جہوری حکمران معترف ہیں حتٰی کہ متحدہ عرب امارات، گلف ایر لائن کے قیام، ترقی، ھوا بازوں کی اعلیٰ تربیت، ایرلائن جدید خطوط پر استوار کرنے، عالمی معیار کے مطابق بنانے کا سہرا کیپٹن فضل غنی کو جاتا ہے۔ یہی نہیں۔ عرب کے بیشتر ممالک اور حتی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ائیر لائنوں کی ترقی، تکنیکی اعلیٰ معیارات، انتظامی صلاحیتیوں، ہوا بازوں کی تربیت اور تکنیکی، انتظامی عملے، طعام خدمات (Catering services) کو ترقی، مستحکم کرنے میں ہماری قومی ایر لائن کے انجینیئروں، ہوا بازوں، افسروں، اور پاک فضائیہ نے اپنا تن، من، دھن قربان کردیا۔ عصر حاضر میں عالمی دنیا کے ایر لائنوں کے بہترین معیارات ہماری قومی ایر لائن یعنی پی آئی اے اور پاک فضائیہ کی بے مثال جدو جہد کی بدولت جدید دنیا کے فضائی چیلنجوں کا سامنا اور مقابلہ کررھی ھیں۔ صوابی کے علاقہ کے ایک اور سپوت منظور خان نے 1977ء میں جامعہ پشاور سے بی ایس کیا۔ انہوں نے بھی ہماری قومی ایر لائن کوجدید خطوط پر استوار کرنے میں شبانہ روز جدو جہد کیا۔ موصوف کا تعلق صوابی کے معروف گاؤں مرغز سے ھے. منظور خان صاحب کا شمار پی آئی اے کے قابل، انتہائی دیانت دار، با صلاحیت افسروں میں ھوتا تھا۔ جو ہمیشہ ادارے میں بد عنوانی کے خلاف ڈھال بنے رہے، موصوف نے ادارے میں جنرل منیجر کے عہدے تک ترقی کی اور سبکدوش ہوئے۔ انہیں قومی فضائی کمپنی کا جی ایم یا ایم ڈی اس وجہ سے نہیں بنایا گیا۔کہ وہ سیاسی بنیادوں پر قابلیت سے ہٹ کر، نااھل، نالایق، اور بے ایمان افراد کی بھرتی سے صاف انکار کرتے تھے۔ موصوف ہمیشہ ادارے میں غیر قانونی بھرتیوں، بدعنوانیوں، لوٹ مار، انتظامی اور مالی بے قاعد گیوں کو روکتے اور بے ایمان افسروں کے راستے میں آہنی دیوار بن جاتے تھے۔ ہماری قومی ایئر لائن کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب مرحوم کے دور میں بھی سیاسی بھر تیاں ہوئی۔ کم درجے کے نالایق لوگوں کو پرکشش ملاز متیں فراہم کی گئیں۔ بھٹو صاحب مرحوم کے سول آمرانہ دور میں غیر ضروری سیاسی طور پر سینکڑوں نفری کو نوکریاں دی گئیں۔اس دور میں کم مدتی ملاز مین سیاسی بنیادوں پراور اثر رسوخ کے بل بوتے مغربی مالک کے سفر کے سالانہ ایک،دو، دو ٹکٹ اور ویزے فراہم کیے جاتے تھے۔ جو مغربی ممالک سے قیمتی اشیاء خرید کر بلیک میں فروخت کر تے تھے۔ جو کسٹم ڈیوٹی سے چھپائے جاتے تھے۔ پیپلز پارٹی دور میں پی آئی اے کے ڈرائیوروں تک خلیجی ممالک خاصکر سعودی عرب، دبئی وغیرہ کے ویزے قومی ایرلاین کے بے ایمان افسروں کے ایما پر چھپ کر لگاتے تھے۔ جن پر حکومت پاکستان کو ٹیکس دیا جانا چاہیے تھا۔ وہ ٹیکس قومی ایر لائن اور حکومت پاکستان سے چھپایا جاتاتھا۔ اور ادا نہیں کیا جاتا تھا۔ جس نے حکومت پاکستان اور قومی ایرلاین کو ناقابل تلافی نقصان دیا۔ بھٹو صاحب مرحوم کے سول مارشل لائی دور میں سیاسی بنیادوں پر غیر ضروری تقرریوں نے بھی اس ادارے کو مالی، انتظامی، اور تکنیکی بنیادوں پر تباہ کیا۔ 1977ء میں ضیاالحق کے مارشل کے نفاذ اور بھٹو صاحب کے جمہوری دور لء خاتمے کے بعد اس وقت کی فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے ا ایک دفعہ 52 نافذ کر دیا۔ جس نے، سیاسی بنیادوں پر غیر قانونی، غیر ضروری عملے کا سخت نوٹس لیکر کئی لوگوں کو فارغ کر دیا۔ بہر حال ان عملے میں اچھے، محنتی، افراد بھی شامل تھے۔تاہم فوجی حکومت کے دفعہ 52 کے نفاذ کی زد میں عملے کے بدعنوان اور دیانت دار افراد دونوں آگئے۔ جس سے کئی شریفوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے تینوں ادوار میں سینکڑوں کی تعداد میں غیر ضروری،غیر قانونی، سیاسی بنیادوں پر افراد کی تعیناتیوں نے اس بے مثال قومی ائیرلائن کا معاشی، انتظامی بیڑا غرق کردیا، بدون اشتہار کے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے غیر ضروری اور سیاسی نوکریوں کی فراہمی نے قومی ایئر لائن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ 2008ء میں پیپلزپارٹی کی سیاسی اور جمہوری حکومت نے بھی اس منافع بخش ادارے کو برباد کیا۔ کرپشن، بے ایمانی، افسروں کی لوٹ مار، طیاروں،سامان کی خریداری، اور کمیشن کے ناسور نے ایرلائن کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ افسروں کی ملی بھگت سے فضائی ایجنٹوں نے مفت میں اور بکی سیٹوں کے خالی سفر نے ایر لائین کی بنیادیں ہلادیں۔ مختلف سیاسی جمہوری اور فوجی حکمرانوں کے ادوار میں اعلی افسروں اور سیاسی اثر ورسوخ کی بنیاد پر ایر لائن میں جعلی اسناد، پر سینکڑوں ایئر ہوسٹس، فلائٹ سٹیورڈ یعنی فضائی میزبانوں، کو اعلیٰ اور درمیانے درجے کی پرکشش، ملازمتیں فراہم کی گئی، ایف ایس سی کے جعلی اسناد اور جعلی لائسنس پر ہوابازوں کو نوکریوں سے نوازا گیا۔ جعلی اسناد اور لائنس پر پائلٹوں نے 28 سال تک اُڑان کی جو قومی ایرلاین کی تیکنیکی، معاشی، صحت کیلئے زہر قاتل تھے۔ اس وجہ سے قومی فضائی کمپنی نے ترقی کی۔ نہ اس کی خدمات عالمی معیار تک پہنچ سکی۔ تمام سیاسی ادوار میں خصوصا انتظامی، مالی، تکنیکی اعتبار سے روبہ زوال رھا۔ پی آئی اے کے موجودہ اثاثے 200 بلین ڈالرہیں۔ مگر موجودہ کٹھ پتلی حکومت اسے اونے پونے داموں میں فروخت کرنے کی نا کام سعی کر رھی ھے۔ اور اس کی قیمت خطرناک حد تک کم کرکے صرف 10 بلین مقرر کی ہے۔ اس کے اندر پروفشنل ٹریڈ یو نین ختم کر کے، غیر تربیت یافتہ، نالایق، سیاسی سفارشی ٹریڈ یو نین قائم کی گئی۔1990ء اور 1993ء کی دھائیوں میں پیپلز پارٹی کے نام نہاد سیاسی یونین پیپلز یونٹی ورکر اور نواز شریف کے غیر پیشہ ورانہ، نا اہل یونین ایر لیگ نے اس ادارے کو زوال کی انتہاؤں پر پہنچا کر رہی سہی کسر پوری کر دی۔ جماعت اسلامی کے توانا، اعلی پیشہ ورانہ صلاحیتیوں اور اعلی جدید تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل پیاسی یونین کا راستہ روک لیا گیا تا کہ پی آئی ترقی نہ کریں۔نواز شریف، اور محترمہ بے نظیر بھٹوکے وزراء کی نااہلی سیاسی مداخلت نے قابل، دیانت دار،پیشہ ورانہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افسران کی بے عزتیاں کی۔ انہیں خلوص نیت سے کام کرنے نہیں دیا گیا۔ اس طرح مجموعی طور پر، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، پرویز مشرف کا آمرانہ دور پی آئی اے کی تکنیکی، معاشی، اور انتظامی تباھی کے ذمہ دار ہیں۔اس ادارے کی نجکاری کسی صورت سود مند نہیں ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ پہلے اس قومی ادارے کو خسارے سے نکال اسے کسی اعلیٰ پیشہ ورانہ، تربیت یافتہ غیر ملکی کمپنی کے حوالہ کیا جائے۔ 1980،82،83کے دہائیوںمیں ایک پیشہ ورانہ، پرکشش نعرہ (SLOGAN) جو عمو ماً پی آئی اے کے سٹکر وں پر سٹیٹس سمبل نمونے کے طور پر درج ہوتا تھا۔جو ملکی اور غیر ملکی سیاحوں، مسافروں کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا۔ great people fly with یعنی قومی ایر لائین کو عظیم لوگ اُڑاتے ہیں۔ جس میں واقعی ما ہر، تربیت یافتہ، قابل عملہ اور ہوا باز ہو اکرتے تھے۔ ملک کے اندر ھو یا باھر آپ کی اپنی قومی ایرلاین جیسے اشتہارات جو اس وقت پی ٹی وی پر چلا کر پی آئی اے کے اعلی اور عالمی معیار کے خدمات کی بہترین عکاسی کرتے تھے۔ باکمال لوگ لاجواب سروس جیسے جملے واقعی پی آئی اے کی بہترین جو فضائی سروس کو نہ صرف اُجاگر کرتے بلکہ یقیناً ایسا ہوتا تھا۔حکومت پی آئی اے کو پہلے خسارے سے نکال دیں۔ اسے منافع بخش ادارہ بنائیں۔ دیانت دار، با صلاحیت ،تربیت یافتہ،قابل، محنتی عملے کو ادارے میں تعینات کریں۔ بد عنوان افسروں کو فارغ کیا جائے۔ جو ادارے کی بربادی کے ذمہ دار ہیں انہیں کٹہرے میں کھڑا کرکے سزائیں دیں۔ اس طرح قومی ایر لایناپنے شاندار، اور زمانہ عروج کی طرف واپس آئے گا۔