تعلیم کی اہمیت اور ہمارے رویے

Nov 25, 2024

عتیق انور راجا

پاکستان میں سیاسی حالات انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں ہر محب وطن شہری پریشان ہے کہ ہمارے سیاست دان اپنی انا اور اقتدار کے لیے کس راہ پہ چل نکلے ہیں۔اچھی خبریں سننے کو کم ہی ملتی ہیں۔سیاستدان جب حکومت حاصل نہیں کر پاتے تو احتجاج کو اپنا جمہوری حق قرار دیتے ہوئے سڑکوں پر نکل پڑتے ہیں۔جواب میں حکومتی محکمے کنٹینر لگا کے رستے بند کرتی ہے۔انٹرنیٹ،پبلک سواری،جی ٹی روڈ اور موٹر ویز بند کردیتی ہے۔یہ سب جمہوری حق کے نام پر ہوتا ہے۔ہمارے سیاستدان کم و بیش سب ایک جیسے ہی ہیں۔آج سے چند سال پہلے احتجاج کرنے والوں نے سڑکیں بند کی ہوئی تھیں آج انہیں سڑکوں کی بندش کا گلہ ہے۔لیکن کہیں سے کوئی تگڑی آواز نہیں آتی کہ اس ملک کے عوام کے بھی کچھ حقوق ہیں۔اس احتجاج کے چلتے عام شہری پریشان ہے۔کاروبار ی لوگ جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں مزید پریشان ہورہے ہیں۔مریض علاج کیلئے ہسپتال نہیں جا پا رہے ہیں۔
ہمارے سیاستدانوں  نے پتہ نہیں کب سیاسی شعور کو پہنچنا ہے۔ تعلیمی ادارے پہلے سموگ کے نام پر بند تھے اب احتجاج کی وجہ سے بند ہیں۔ویسے ہمارا تعلیمی نظام اس قدر بوسیدہ ہے کہ ڈگری لینے کے بعد نہ نوکری ملتی ہے نہ نوجوان اس تعلیم سے کوئی کاروبار کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔نوکری حاصل کرنی ہو تو اکثریت میں نوجوانوں کوسفارش،رشوت اورتعلقات کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ کسی نے کوئی کاروبار کرنا ہو تو اسے ڈگری لینے کے بعد الگ سے کوئی ٹیکنیکل کورس کرنا پڑتا ہے۔
قرآن کی پہلی آیت اقراء سے شروع ہوتی ہے یعنی پڑھیے۔ اسکے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ مجھے معلم بنا کے بھیجا گیا ہے۔اسکے بعد بھی تعلیم کے بارے میں بہت سی  احادیث موجود ہیں جیسے کہ آپ نے فرمایا کہ علم حاصل کروچا ہے تمہیں چین جانا پڑے۔ اس زمانے میں چین جانا بہت مشکل تھا ایک تو سفر بہت مشکل تھا  پھر چین نے اپنے ملک کی سرحد پر عظیم دیوار چین بھی کھڑی کر دی ہوئی تھی۔لیکن اللہ کے آخری نبی ؐ نے علم کی اہمیت سمجھانے کیلئے فرمادیا کہ علم حاصل کرو چاہے جتنی بھی مشکلات طے کر کے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔مسلمانوں اور کفار کے درمیان بدر کے مقام پر پہلی جنگ کے بعد کفار کے بہت سے لوگ قیدی بنا لیے گئے جن کے پاس رہائی کیلئے کچھ نہ تھا انہیں یہ کہا گیا کہ جو ہمارے بچوں کو پڑھا دے  اسے چھوڑ دیا جائے گا۔یہ بے شک نبی پاک ؐ کاعلم کی اہمیت سمجھانے کیلئے یہ بہت اہم قدم تھا۔کہ جن سے جنگ کا سامنا تھا۔جنہوں نے تکلیفیں دے کے مسلمانوں کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا جب وہ شکست خوردہ ہوئے تو ان پر ظم و ذیادتی کرنے کی بجائے ان سے مدینے کے بچوں کو علم دلوانے کا کام لیا گیا۔ حضرت علی ؓ کا قول بیان کیا جاتا ہے کہ علم مومن کی میراث ہے یعنی جہاں سے بھی علم ملے، اسے اپنا حق سمجھ کے حاصل کیا جائے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں شروع  دن سے ہی تعلیم کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں سے یہ عجیب رسم چل پڑی ہے کہ ہر سال جیسے ہی نومبر کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو ہماری عدالتیں، حکومتیں سب سے پہلا کام کرتی ہیں کہ سکول بند کر دو۔کوئی پوچھے جناب عالی! سموگ کی وجہ سکول کیسے بن سکتے ہیں کیا بچے دھواں چھوڑتے ہیں۔پھر ہماری سرکار کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ انگریز سرکار نے کرسمس اور نئے سال کے پیش نظر دسمبر کے آخری ہفتے میں چھٹیاں شروع کی تھی ان چھٹیوں کا سردی سے کوئی تعلق نہ تھا برطانیہ میں اس سے زیادہ سردی پڑتی ہے لیکن وہاں تعلیمی نظام چلتا رہتا ہے۔ بہت ضروری ہے کہ پاکستان بھر میں صرف 25 دسمبر کی عام چھٹی ہو۔اور مسیحی برادری کو ساتھ ایک دو چھٹی اور دے دی جائے۔اگرجنوری میں موسم کچھ دن کے لیے شدت اختیار کرے تو دو چار پانچ دس دن چھٹیاں کی جا سکتی ہے لیکن جیسا کہ شروع میں احادیث میں حکم ہے کہ علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے اس کا مطلب یہ ہے کہ علم حاصل کرو چاہے جتنی بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔کچھ ملکوں میں تو سارا سال سردی رہتی ہے ان ملکوں نے نظام زندگی کو رواں دواں رکھنے کیلئے عوام کو سہولتیں مہیا کی ہیں۔ پاکستان میں گرمی و سردی کے پیش نظر تعلیمی ادارے بند کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہے۔ہاں سکولوں کے اوقات کار تبدیل کیے جانے چاہیے۔ سردیوں میں سکول صبح نو بجے کے بعد اور گرمیوں میں صبح چھ بجے۔سکولوں  میں کلاس رومز کا ماحول بہتر کیا جانا چاہیے۔ حکومت کا کام ہے کہ بچوں کے سکول آنے جانے کیلئے حکومت جدید سہولتوں سے مزین گاڑیاں فراہم کرے۔احادیث کی روشنی میں تعلیم کی اہمیت پر سوچنے کی بہت ضرورت ہے اور ایک تھنک ٹینک بنا کے ملکی تعلیم کا مقصد واضع کرنا ہوگا۔جیسا کہ ہمیں اپنے بچوں کو پرائمری تک قرآن مکمل پڑھایا جائے۔ساتھ ہی کچھ شرعی احکامات شامل کردئیے جائیں،مڈل کلاس تک اردوکی کتاب میں مقامی ثقافت،بولی اور تاریخ کے واقعات شامل کیے جائیں، ہائی کلاس کیلئے کچھ خاص مضمون طے کردئیے جائیں۔ اب ضروری نہیں ہے کہ ہر بچہ فزکس،ریاضی، اسلامیات، پنجابی، اردو یا انگلش کو بطور زبان پڑھے اب وقت ہے بچوں کو چوائس دے دی جائے کہ انہوں نے کس مضمون میں سپیشلائزیشن کرنی ہے۔اخلاقی،معاشی اور سیاسی کامیابی تب ہی ممکن ہوگی جب ہم بحیثیت قوم اپنے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیم کو اہمیت دیں گے،نصاب میں وقت کے ساتھ تبدیلی کریں گے۔ ہم نے بحیثیت معاشرہ نہ کبھی استاد کو عزت دی ہے اور نہ ہی ہم نے کبھی تعلیمی نصاب کو اخلاقی،سائنسی بنیادوں اور وقت کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق تیار کرنے کی کوشش کی ہے اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اچھا معاشرہ تشکیل دے سکے ہیں نہ اپنی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے اچھے کاروباری لوگ سامنے لا سکے ہیں اور نہ ستاروں پر کمند ڈالنے والے شاہین تیار کرسکے ہیں۔

مزیدخبریں