صوفیہ بیدار کی کتاب ’’رنگریز‘‘

صوفیہ بیدار کا نام ادب کی دنیا میں نیا نہیں۔  دنیا اس کو جانتی ہے پہچانتی ہے…بہترین شاعرہ ہے اور بہت سی خوبیوں کی مالک ہے بلکہ یوں کہوں گی کہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہے۔
اس کی کتاب رنگریز کچھ دن ہوئے وصول ہوئی تو مجھے یوں لگا کہ میرے ہاتھوں کے پیالوں میں کسی نے خوبصورت تحفہ رکھ دیا ہو… بہت سال پہلے بھارت سے آئے ہوئے رائیٹرز کا فنکشن تھا… اس میں ہم دونوں میاں بیوی مدعو تھے… صوفیہ نے اس فنکشن میں بڑی عمدہ کمپئیرنگ کی۔ میں بہت متاشر ہوئی… اس فنکشن پر میں نے کالم لکھا اور صوفیہ کی بہت تعریف کی…حالانکہ میں اس وقت جانتی نہیں تھی۔
گزشتہ چند سالوں سے فیس بک پر میں اس کی نظم یا غزل کے اشعارکو پڑھ کر بہت محظوظ ہوتی ہوں اور اکثر میں اس سے پوچھتی ہوں…تمہارے شعروں کو پڑھ کر یہ اندازہ لگاتی ہوں کہ کوئی ایسا ہے جس کیلئے تمہارے دل میں بہت صوفٹ کورنر ہے… تو صرف مسکرا کر رہ جاتی ہے۔رنگریز کو جب دیکھا تو افسانوں کا مجموعہ تھا تو میں حیران رہ گئی۔۔۔ میں نے سوچا صوفیہ تو چھپی رستم نکلی چپکے چپکے افسانے لکھتی رہی تو مجھے معلوم بھی نہیں ہوا… کیونکہ کئی سالوں سے اب میری بڑی اچھی دوست بن چکی ہے…مجھے اس کے افسانے بڑے مختلف لگے… صوفیہ نے علامتوں اورتشبیہوں سے وہ کہہ دیا جو ایک عورت لکھتے ہوئے گھبراتی ہے…مگر نہایت ڈھکے چھپے لفظوں میں لکھتی ہے….. جو ہر لحاظ سے منفرد ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ وہ افسانہ لکھنے کا ہنر جانتی ہے۔  
میں افسانوں کی کتاب کا مطالعہ کرنے لگی تو مجھے بہت دلچسپ لگے…کتاب چھوڑنے کو جی نہیں کررہا تھااور ایک ہی نشست میں ساری کتاب پڑھ لی۔
 کتاب کا ہر افسانہ ایک دوسرے سے مختلف ہے تقریباََ سارے افسانے بہت عمدہ ہیں مگر پچھواڑے افسانہ مجھے بہت پسند آیا… اس میں گہری محبت کی کہانی ہے جو اس کے گھر والوں کو نظر نہیں آتی تھی۔
بہن شانزے اسے کہتی ہے۔ 
تم اس فرا ڈئیے کیلئے پیدا ہوئی ہو…تو نورے جواب دیتی ہے۔ ہاں میں اس کیلئے پیدا ہوئی ہوں… بہن غصے سے جواب دیتی ہے۔
تم جیسی عورتوں نے ہی ایسے گھٹیا مردوں کو خدا بنا رکھا ہے… جب تم ہسپتال لائی جارہی تھی تو وہ مجرا سننے جارہا تھا تمہیں یہ جھانسا دے گیا کہ تمہارے آپریشن کیلئے منت مانگنے جارہا ہوں… جب کنجر خانے پر چھاپہ پڑا تو ریڈ کرنے والوں میں یہ بھی شامل تھا۔
نورے نے جواب دیا۔
مزار واقعی اس علاقے میں ہے۔
پھر وہاں کیا کر رہا تھا۔
بھئی اس کے دوست لے گئے تھے میری صحت کیلئے دعا مانگنے کیلئے۔
نورے آنکھیں بند کئے اپنے گھر کے پچھواڑے میں یادوں میں کھو گئی… بھائی نے گھر کا عقبی حصہ سرخ اینٹوں کی چنوائی سے بھر دیا…اور فرنٹ کا حصہ جدید طرز سے تعمیر کروایا تھا… سامنے کی بیٹھک اورلاؤنج کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ گھر کا پچھلا حصہ کبوتروں کی غٹرغوں، پرانے کنویں اور النگنی پر پڑی رنگ برنگی اوڑھنیوں سے سجا ہے۔  نورے آنگن کا زینہ اترتی ہے اور خود کلامی میں شعر پڑھتی ہے۔
رات کے دل میں اتر جاتی ہوں رانی بن کر
گھر کے پچھواڑے کوئی یاد پرانی بن کر
غرض کہ دونوں کی لازوال محبت تھی…وہ محبت ان دونوں کے دلوں میں پنہاں تھی۔   
نورے کا اپینڈکس (Appendix)کا آپریشن تھا۔ خون کی ضرورت پڑی تو حوالات میں رات گزارنے کے بعد اس کا شوہر چھ ساتھ لفنگے اٹھا لایا۔ سب خون دینے کیلئے بے قرار تھے۔بھائی اپنی بہن نورے کو کہتاہے۔ اسے کوٹھے سے پکڑ کر لایا ہوں۔ اپنے ہاتھ سے انگوٹھی اتار دو۔  بھابی انگوٹھی اتارنے لگتی ہے تو نورے ہاتھ جھٹک دیتی ہے۔
فراز اس کے شوہر کو ہتھکڑی لگی ہوتی ہے جو ہاتھ ہتھکڑی سے آزاد تھا۔ جیب میں ہاتھ ڈال کر نیاز کے مکھانے اس کی ہتھیلی میں تھما کر اس کی مٹھی بند کر دیتا ہے۔
 نورے کا آپریشن ٹھیک ہو گیا تھا مگر بے ہوشی گہری ہو گئی تھی۔ قومے میں جانے کا خطرہ تھا شوہر اس وقت اسکے سرہانے بیٹھ کر وضیفہ پڑھتا رہا۔سب اس وقت ترکیبیں سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح اس کے شوہر سے چھٹکارا کروائیں تو بے ہوشی کے درمیان یہ سب سننا نہیں چاہتی تھی۔  نیند کو ترجیح دے رہی تھی کوئی لمس‘ مہک‘آیت اسکو گھر کے مانوس پچھواڑے لے جا رہی تھی۔ جہاں زندگی تھی‘ محبت تھی… خوشی تھی۔ سرسراہٹ تھی.  جسے غور سے سننا چاہتی تھی۔
  محبت سے چاہت سے آنکھیں کھول دیں۔
ڈاکٹرز نے کہا انہیں گھر لے جائیں۔ہاں مگر ان کے پسندیدہ حصے پچھواڑے میں۔
صوفیہ بیدار نے انسانی جبلتوں کی نہایت عمدہ منظر نگاری کی ہے۔ وہ فرشتوں میں نہیں انسانوں میں رہتی ہے۔ انکے جذبات کو ٹٹول کر موتی جیسے الفاظ پروتی ہے بلکہ بڑے باوقار طریقے سے عورت کی محبت کا ذکر کرتی ہے۔دنیا میں کوئی کہانی نئی نہیں ہوتی۔ صرف لب و لہجہ اور اسلوب نیا ہوتا ہے۔ اچھی تحریر کیلئے واردات، مشاہدہ اور پھر زبان کا استعمال بہت ضروری ہے۔
یہ سب چیزیں اس کے افسانوں میں ملتی ہیں۔
صوفیہ بیدار بہترین شاعرہ ہے مگر اسکے افسانوں کا مجموعہ پڑھ کر رنگریز اندازہ ہوا یہ شاعری کے ساتھ ساتھ بہترین افسانہ نگار بھی ہے۔
یوں تو سب کو صوفیہ بیدار کو حساس شاعری کے حوالے سے جانتے ہیں لیکن اسکی نثر اسکی شاعری کے ہم پلہ ہے۔ سادہ جملوں کے ساتھ اپنی نثری شاعری کرتی ہے۔ یہ تحریریں عامیانہ نہیں کیونکہ صوفیہ بے باک طریقے سے انسانی رشتوں اور معاشرے کی عکاسی کرتی ہے۔یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ صوفیہ بیدار کسی سے ڈرتی نہیں۔ اسکے افسانے اسکی گواہی دیتے ہیں۔  میں امید کرتی ہوں۔ مزید افسانے اور فکشن لکھے گی کیونکہ اس کیلئے اچھا افسانہ لکھنا کوئی مشکل نہیں بس دعا کرتی ہوں…کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

ای پیپر دی نیشن