قصہ ایک بھارتی جاسوسہ کا!

   دنیا کے قدیم ترین پیشوں یا سیکورٹی ضروریات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ’’جاسوسی‘‘ کی ضرورت سب سے اہم اور سب سے قدیم ہے۔ آج کل کے دور میں دشمن کی’’ جاسوسی‘‘اتنی ہی ضروری ہے جتنی جنگی تیاری۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ بھارت کی شکل میں ہمیںا یک ایسا پڑوسی ملا ہے جو ہماری  سا لمیت برداشت ہی نہیں کر سکتا۔پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا اور ہر وقت جاسوسی بطور ایک ’’اہم ہتھیار‘‘ کے استعمال کرتا ہے۔جب سے ہم نے ایٹمی توانائی کے حصول کی کوشش شروع کی ہے بھارت اور اسرائیل کی نیندیں حرام ہیں۔ان دونوں ممالک نے ہماری ایٹمی توانائی پر نظر رکھنے کے لئے جاسوسی کا ایک پورا نیٹورک قائم کر رکھا ہے لیکن شکر ہے اللہ تعالیٰ کا کہ ہماری ISIبہت ہوشیاری سے اپنا فرض ادا کر کے دشمن کی کوششوں کو ناکام بنا دیتی ہے۔کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ ایک ایسا واقعہ اسلام آباد میں پیش آیا جسے ISIنے بہت کامیابی سے اِسے ناکام بنایا۔ یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ بھارت اپنے مقصد براری کے لئے عموماً خوبصورت نوجوان لڑکیوں کو استعمال کرتا ہے جو پاکستانی نوجوانوں کو اپنے سیکس کے جال میںپھانسنے کی ماہر ہوتی ہیں اور اکثر اپنا کام دکھا جاتی ہیں۔
یہ1980 ء کی دہائی کا واقعہ ہے کہ ان دنوں یہ افواہ گرم تھی کہ پاکستان نے ایٹم بم تیار کر لیا ہے۔ اسرائیل اور بھارت کے لئے پاکستان کا ایٹم بم بنا لینا کسی سانحہ سے کم نہ تھا۔ دونوں ممالک نے مل کر پاکستان کے ایٹمی ری ایکٹر پر بمباری کر کے تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن بمباری سے پہلے وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا واقعی پاکستان نے ایٹمی توانائی حاصل کر لی ہے یا نہیں کیونکہ پاکستان کا جوابی وار بہت خطرناک ہوسکتا تھا۔
   اس مقصد کے لئے ایک لڑکی کو استعمال کیا گیا جس کا نام ’’مس رینہ‘‘ تھا اور یہ بہت پڑھی لکھی تیز طرار قسم کی لڑکی تھی۔ اسے تربیت دے کر اسلام آباد بھارتی سفارتخانے میں بھیجا گیا اور اِسے سفارتخانے کی رہنمائی میں کام کرنے کا حکم دیا گیا۔ بھارتی سفارتخانے نے اِسے ایک سنیئر سیکرٹری مسٹرنندا کے ساتھ مل کر کام کی ذمہ داری سونپی۔ اس کا کام پاکستان کے ایٹمی پروجیکٹ پر ہر قسم کی انفارمیشن اکٹھی کرنی تھی اور یہ انفارمیشن اپنے سیکرٹری انچارج ’’مسٹر نندا‘‘ کی معرفت حکومت ہند کو بھیجنی تھی۔ مسٹرنندا خود بھی انٹیلیجنس ٹرینڈ شخص تھا۔ مسٹر نندا نے مس رینہ کو ISIکی نظروں سے بچانے کے لئے اپنے ایمبیسی سکول میں لیڈی ٹیچر بنا کے لگا دیا۔ISIپہلے ہی بھارت کے خلاف بہت متحرک تھی۔ ISIنے بھارتی ایمبیسی اور اس سے منسلک تمام شک و شبہ والے مقامات پرگہری نظر رکھی ہوئی تھی۔ ISIنے محسوس کیا کہ ایمبیسی سکول میں مس رینہ کہنے کو تو سکول ٹیچر ہے لیکن یہ تو کسی کلاس کو پڑھاتی ہے اور نہ ہی باقاعدگی سے سکول جاتی ہے۔ گھومنے پھرنے کی شوقین ہے اور مختلف پارٹیوں میں باقاعدگی سے شامل ہوتی ہے۔لہٰذا ISIنے مس رینہ پر گہری نظر رکھنی شروع کر دی۔ اب ISIنے ایک ہندو خاتون کو جو ISIکے نیٹ پر تھی اْسے کہا کہ بھارتی سکول میں اپنے بچے کو داخل کرائے۔ جب بچہ داخل ہو گیا تو یہ ہندو خاتون ہر دوسرے تیسرے دن بچے کے بہانے سکول جاتی اور مس رینہ سے ملتی۔ یہ ملاقاتیں آہستہ آہستہ دوستی میں بدل گئیں یہاں تک کہ مس رینہ نے اْس کے گھر بھی آنا جانا شروع کردیا۔اس دوستی سے دونوں اپنے اپنے مقاصد کے لئے کام کرنے لگیں۔ مس رینہ اس خاتون کو اپنے ایجنٹ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی تھی جبکہ ISI اس خاتون کے ذریعے اپنا مقصد پورا کر رہی تھی۔
   ایک دوپہر ISIکو اطلاع ملی کہ مس رینہ سیکرٹری نندا کے ساتھ اسلام آباد کے سب سے پوش ہوٹل میں گئی ہے۔ ISIفوراً ہوٹل پہنچی تو پتہ چلا کہ نندا کے نام پر ایک کمرہ بک ہے اور اس کمرے میں مس رینہ اکیلی موجود ہے جبکہ مسٹر نندا کچھ دیر کمرے میں ٹھہر کر باہر آگیا اور ریسیپشن پر آکر بیٹھ گیا لیکن یوں ریسیپشن میں بیٹھنے کی وجہ سمجھ نہ آئی۔ ISIنے اْس کی حرکات سے اندازہ لگایا کہ وہ کسی کا انتظار کر رہا ہے لیکن کس کا؟ یقینا کسی اہم شخصیت کا انتظار ہو گا جو شاید باہر سے آرہی ہوگی۔
 ISIنے ائیر پورٹ سے چیک کیا تو پتہ چلا کہ اس وقت تو کوئی فلائٹ نہیں آرہی۔پھر انہوں نے چیک کیا کہ آیا کوئی بھارتی گاڑی کسی مہمان کو لینے کے لئے ائیر پورٹ پر موجود ہے یا نہیں؟ پتہ چلا وہ بھی نہیں۔ اس سے اندازہ ہو گیا کہ مہمان باہر کا نہیں بلکہ مقامی شخص ہے۔ لہٰذا ISIڈیرہ جما کر بیٹھ گئی۔
   تھوڑی دیر بعد ایک سمارٹ سا نوجوان ریسیپشن میں داخل ہوا تو مسٹر نندا نے اْٹھ کر اس کا استقبال کیااور کہا ’’ویلکم مسٹر نوید‘‘میں آپ ہی کا انتظار کر رہا تھا لیکن نوید کچھ گھبرایا گھبرایا نظر آیا۔ بہرحال نندا اْسے اوپر رینہ کے کمرے میں لے گیا۔ چند منٹوں بعد نندا خود باہر آگیا اور نوید اندر رینہ کے پاس رہا۔ نندا باہر آکر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر واپس روانہ ہو گیا۔
 اب ISIنے اپنا کام شروع کیا۔ اپنے ایک جوان کو ویٹر کے روپ میں مس رینہ کے کمرے میں بھیجا۔ اْس نے دیکھا کہ نوید اور رینہ دونوں ساتھ ساتھ ایک ہی صوفہ پر بیٹھے ہیں۔ بہرحال ISI کا جوان مس رینہ سے چائے کا آرڈر لے کر واپس آگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ چائے کی ٹرالی لے کر اندر گیا۔ ٹرالی کی نیچلی طرف ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر اور کیمرہ نصب تھے جو وہ وہاں چھوڑ کر واپس آگیا۔ کچھ دیر بعد وہ دوبارہ اندر گیااور چائے والی ٹرالی واپس لایا۔ ساری ریکارڈڈبات چیت اور فوٹو زسے مس رینہ کا بھید کھل گیا۔ 
اتنی دیر میں نوید بھی باہر نکل آیا۔ اْس کے ماتھے پر پسینہ تھا اور بہت گھبرایا ہواتھا۔ جلدی جلدی باہر نکلنے کی کوشش کی۔ISI گیٹ پر موجود تھی انہوں نے پکڑ لیا۔نوید کا سارا جسم خوف سے کانپ رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ اٹامک انرجی میں انجنئیرہے اور چند دن پہلے وہ لاہور سے واپس آرہا تھا تو ویگن میں اس کی ملاقات مسٹر نندا سے ہوئی تو یوں جان پہچان ہوگئی۔ آج اْس نے خصوصی طور پر مجھے بلایا تھا اور مس رینہ سے ملاقات کرائی۔
    اب اگلا قدم مس رینہ کو پکڑنا تھا جس کے لئے سخت احتیاط کی ضرورت تھی کہ کہیں کوئی ڈپلومیٹک سکینڈل نہ بن جائے۔ اْ سے چھوڑا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ بہرحال ISIکے ایک سمارٹ سے نوجوان کو ہوٹل منیجرکے روپ میں مس رینہ کے پاس بھیجا گیا۔ اْس نے منیجرکی طرح چائے اور سروس کے متعلق پوچھا اور پھر آہستہ آہستہ اْسے اپنے مقصد کی طرف لے آیا۔ جب رینہ کو پتہ چلا کہ اْس کا بھید کھل چکا ہے تو اْس نے رونا شروع کر دیا اور بتایا کہ اْس کے والدین بہت غریب تھے لیکن پھر بھی انہوں نے اْسے اعلیٰ تعلیم دی لیکن باوجود بہت کوشش کے اْسے کو ئی ملازمت نہ ملی۔
 ایک دن اْ س کی ایک سہیلی نے اْس کی ملاقات ایک ایسے آفیسر سے کرائی جس نے اْسے جاب دینے کا وعدہ کیا لیکن اْس آفیسر نے بتایا کہ یہ جاب پاکستان میں ہو گا جس کے لئے وہ راضی ہو گئی۔ لہٰذا اْسے تربیت دی گئی کہ کس طرح نوجوان مردوں کو پھانسنا ہے۔ تربیت کے بعد اْسے ’’ را ‘‘میں ملازمت دے کر اسلام آباد بھیج دیا گیا۔ اب اْسے ISIنے آفر دی کہ اگر وہ’’ را‘‘ کیساتھ ساتھ ISI کے لئے بھی کام کرے تو اْس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔ وہ فوری طور پر راضی ہو گئی اور ڈبل ایجنٹ کے طور پر اپنے سفارتخانے کی تمام خبریں ISIکو دینی شروع کر دیں۔ چند ماہ بعدبھارت کو اْس کی کارکردگی پر شک گزرا تو اْسے واپس بھارت بلوایا لیکن وہ نہیں جانا چاہتی تھی بلکہ مسلمان بن کر پاکستان میں شادی کرکے رہنا چاہتی تھی لیکن ISIاس کے لئے یہ بندوبست نہ کر سکی اور اْسے مجبوراً بھارت جانا پڑا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن