ہم دہشت گردی ختم کیوں نہیں کرسکے؟

Nov 25, 2024

ڈاکٹر طلعت شبیر- اطراف

پاکستان میں دہشت گردی کا ایک اوردل خراش واقعہ پیش آیا ہے۔خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں پاراچنار سے پشاور جانے والی مسافر گاڑیوں پر نامعلوم دہشت گردوں نے مختلف مقامات سے فائرنگ کی جس کے نتیجے میںمتعدد افراد شہید ہو گئے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیںجبکہ حملے میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔ گنتی کے حوالے سے احتیاط برتنے کی وجہ یہ ہے کہ میڈیا میں اور سوشل میڈیا میں تعداد کے حوالے سے مختلف رپورٹس آرہی ہیں۔ دہشت گرد حملے میں پہلے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا گیا اور پھر 200 کے قریب گاڑیوں کو تین مختلف مقامات پر دونوں اطراف سے نشانہ بنایا گیا۔ اِنسانیت کے خلاف اِس گھنائونے عمل کی وجہ سے معصوم زندگیاں چھن گئیں۔ بلا شبہ اِس بربریت کا شکار ہونے والے افراد اور اْن کے خاندانوں کا دْکھ پوری قوم کا دْکھ ہے اور جب سے یہ واقعہ پیش آیا ہے قوم اِ س پْر درد واقعہ پر شدید غم و غصہ کا اظہار کر رہی ہے۔سب سے اندوہناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی کے اِس واقعے میں سب سے کم عمر شہید 6 ماہ تھا۔ سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والی تصاویر اور ویڈیوز بھی بہت کرب ناک ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ ایک افسوسناک اور پیچیدہ باب ہے جس کا آغاز 1980 کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران اْس وقت ہواجب پاکستان نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کے لیے ا مریکہ اور عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر جہاد کی  حمایت کی۔ افغان جہاد کے بعدیہ گروہ ملک کے اندر مختلف شدت پسند تنظیموں کی شکل اختیار کر گئے۔ 1990 کی دہائی میں فرقہ واریت اور مسلح شدت پسند تنظیموں کی کارروائیوں نے ملک میں دہشت گردی کو ایک نیا رخ دے دیا۔ 2001 کے حملوں کے بعد دہشت گردی نے شدت اختیار کر لی اور امریکہ نے اپنی سرزمین پر دہشت گرد ی میں ملوث تنظیموں کا پیچھا کر نے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار کی جس کا نشانہ افغانستان تھا اور یقینا افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیمیں تھیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے پاکستان کو اپنی سرزمین پر خودکش حملوں، بم دھماکوں اور مسلح کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ردِ عمل پاکستان میں آتا جس سے نہ صرف ملکی معیشت اور سلامتی کو بری طرح نقصان پہنچا بلکہ ہزاروں معصوم جانیں بھی ضائع ہوئیں۔پھر دو دہائیوں کے بعد حالات بدل گئے۔علاقائی حالات بدل جانے اور افغانستان سے امریکی ا فواج کے انخلاء کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں جاری ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف فوجی اپریشنز، نیشنل ایکشن پلان اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے تعلیمی اصلاحات جیسے متعدد اقدامات ہوئے جن کے باوجود دہشت گردی کے واقعات میں کمی نہ آسکی۔ حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا اور بڑی تعداد میں جانی نقصان ہوا ہے۔
2001 کے بعد گذشتہ 24 سالوں میں پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اعداد و شمار کے مطابق 163 ممالک کے گلوبل دہشت گردی انڈیکس 2023 میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔2001 سے لیکر 2019 تک پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے64 ہزار کے قریبلوگ جاں بحق ہوئے جن میں 7 ہزار کے قریب سیکیورٹی اداروں کے اہلکار شامل ہیں۔ 2001 سے 2023 تک پاکستان کو ایک محتاط اندازے کے مطابق 127 بلین ڈالر زکا نقصان ہو چکا ہے۔ جانی اور مالی نقصان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بسنے والے کے لوگ مسلسل ایک خوف اور کرب کی صورتحال سے گزر رہے ہیں اور مختلف نفسیاتی اور سماجی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔ اگر کوئی ملک دہشت گردی کا صحیح معنوں میں شکار ہے تو وہ پاکستان ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی وجوہات پیچیدہ اور کثیرالجہتی ہیں۔ دہشت گردی کی وجوہات میں سیاسی، سماجی، اقتصادی اور مذہبی عوامل بھی شامل ہیں۔ 80 کی دہائی میں اِس خطے پر اثر انداز ہونے والے عالمی اور علاقائی تنازعات دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ ہیں۔بین الاقوامی عوامل جیسے کہ امریکہ اور روس کے مابین سرد جنگ اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے دوران افواج کے بعض اقدامات نے مقامی شہریوں کو نالاں کیا اور جانی اور مالی نقصان کی وجہ سے بڑے پیمانے پر شدت پسندی کے رْحجان سامنے آئے۔ افغانستان کی سرزمین پر ہونے والی سرد جنگ اور بعد ازاں 2001 میں شروع کی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان میں شدت پسندی کو فروغ ملا۔ علاقائی سطح پر غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت اور پراکسی جنگیں دہشت گردی میں اضافے کا سبب بنیں۔ ماضی میں شدت پسند گروہوں کو غیر قانونی طور پر مالی امداد اور سہولت کاری میسر رہی جس کی وجہ سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے واقعات بڑھے۔ معیشت کی زبوں حالی اور روزگار کے مواقع کی کمی نے لوگوں کو غیر قانونی سرگرمیوں کی طرف راغب کیا۔
پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جامع، مربوط اورطویل مدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد سے ایک جامع قومی حکمت عملی کی تشکیل دینی چاہیے۔ نیشنل ایکشن پلان (NAP) ایک اچھی مثال تھا لیکن اِ س پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔دہشت گردی کے حل کیلئے سیکیورٹی اداروں کی استعداد اور کارکردگی بہتر بنانے کیلئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے کیلئے قوانین کے نفاذ کو یقینی بنانا ضروری ہے۔تعلیمی اداروں خصوصی طور پر مدارس میں اِس بات کو یقینی بنایا جائے کہ شدت پسندانہ نظریات کو فروغ نہ ملے۔ شدت پسند نظریات کیخلاف آگاہی ، غربت اور بے روزگاری کو کم کرنے کیلئے جامع اقتصادی اصلاحات، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینا بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حل کیلئے اہم ہے۔ اور سب سے اہم یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کیلئے مندرجہ بالا حکمتِ عملی اْسی صورت کامیاب ہوگی جب ملک کے بہترین مفاد میں قوم اور ادارے یکسو ہوں گے۔

مزیدخبریں