پیر‘ 22 جمادی الاول 1446ھ ‘ 25 نومبر2024ء

بشریٰ بی بی انکار کے باوجود کا جلوس کے ساتھ جل پڑ یں
ہو سکتا ہے یہ کوئی روحانی رمز و کنایہ ہو، مرشد اور پیرنی کے درمیان اور انھوں نے باہمی حسن اتفاق سے یہ فیصلہ کیا۔ شاید حفاظتی نکتہ نظر کی وجہ سے کہ بشریٰ بی بی سیاست سے دور رہیں۔ ویسے بھی مرشد سر پر ڈبہ نما حفاظتی خود رکھ کر عدالتوں میں آتے تھے، اسی طرح پیرنی بھی ابھی تک چھتری تلے عدالتوں میں آتی ہیں، برآمدوں میں بھی چھتری تانے ایک خدمت گار مرید مستقل موجود رہتا ہے۔ مرشد کے تو ارگرد باقاعدہ حفاظتی آہنی دیوار بنائی جاتی تھی اور سر پر حفاظتی ہیلمٹ نما ڈبہ پہنایا جاتا تھا جسے حریف ٹوکری کہتے تھے۔ خیر آمددم برسر مطلب، اب ایک ماہ سے بشریٰ بی بی بڑے طمطراق سے ازخود چیئرمینی کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے سیاسی میٹنگ میں حصہ لے رہی تھیں۔ اجلاس ان کے زیرصدارت ہوتے تھے جن میں خیبر پختونخوا کے ایم این ایز اور ایم پی ایز دست بدست شریک ہو کر ان کے احکامات سنتے۔ اسی طرح طلبہ اور یوتھ ونگ کے عہدیدار اور ارکان کو بھی شرف ملاقات دیا جاتا تھا۔ اس دوران خبر بھی آئی تھی کہ قیدی مرشد نے بشریٰ بی بی کو سیاسی معاملات سے دور رہنے کا حکم دیا تھا مگر وہی ’نہیں نہ مانوں‘والی بات، پیرنی نے ایسا نہیں کیا۔ علیمہ خان نے اپنی نند کو ایسا کرنے سے روکا مگر وہ بھی ناکام رہیں۔ اب جیل سے پھر سیاست سے دوری کا حکم آیا مگر بشریٰ بی بی نے ازخود کوئی غیبی اشارہ دیکھا اور فیصلہ کیا ہے کہ وہ احتجاجی جلسہ جلوس میں شریک ہوں گی۔ بقول مرشد وہ ایک عظیم روحانی خاتون ہیں۔ سو وہ بھی اچانک قافلے کے ساتھ نکل پڑیں۔ مگر اب ان کے اس فیصلے سے علی امین گنڈاپور کو بہت دکھ اور نقصان پہنچا ہے جو شریک چیئرمین بن کر بہت سی نئی پلاننگ کر رہے تھے جس سے علیمہ اور عظمیٰ خان بھی ناراض تھیں۔ باقی بیرسٹر گوہر ہو، عمر ایوب ہو یا شبلی فراز، ان میں تو جرأ ت نہیں کہ وہ وزیراعلیٰ کی کسی بات سے اختلاف کریں یا ان سے سوال کریں۔
٭…٭…٭
اسلام آباد دھرنے سے قبل ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے مناظر
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی حکومت نے حفاظتی اقدامات کے نام پر جس طرح سڑکیں، ہائی ویز، موٹر ویز بند کرکے عوام کو پریشانی میں مبتلا کیا، وہ ہر حکومت کا وتیرہ رہا ہے۔ اپوزیشن والے اسے اپنی بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ اور اب بھی کانپیں ٹانگ رہی ہیں کا جملہ کہہ کر ان اقدامات کو حکومت کی شکست قرار دے رہے ہیں۔ بے شک عوام کے جان و مال کی حفاظت لاء اینڈ آرڈر کی بحالی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے مگر اس طرح کرکے عوام کو بلاجواز تنگ کرنا بھی تو ناجائز ہے۔ اب پنجاب سے کوئی کمک ڈی چوک دھرنے کے لیے نہیں پہنچ سکی۔ اس لیے انھیں لاہور میں احتجاج بتی چوک پر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان والے کوئٹہ میں، سندھ والے کراچی میں دھرنا دیں گے۔ شاید یہ غیرمعینہ مدت کے لیے ہوگا یا چند روزہ علم نہیں۔ البتہ گنڈاپور کہہ رہے ہیں کہ جیسے ہی راستے کھلیں گے، تینوں صوبوں سے ہمارے کارکنوں کے دستے اسلام آباد آجائیں۔ شاید اس وقت تک خیبر پختونخوا والے مظاہرین وہاں یا اسلام آباد کے اردگرد مورچہ زن رہیں گے۔ جب باقی صوبوں کی نمائندگی بھی آجائے گی تو پھر شاید فائنل راؤنڈ ہوگا۔ بس شرط یہ ہے کہ اس وقت تک انھیں آرام سے وہاں ان کے کھانے پینے اور سونے کا بندوبست ہو۔ ایسا ہونا مشکل ہے کیونکہ حکومت بھی تیار ہے۔ خدا کرے یہ مشکل وقت بھی خیروعافیت سے گزر جائے اور ملک و قوم اس کے تمام ادارے اور عوام مطمئن و کامیاب رہیں۔ جو ملک دشمن عناصر اس صورتحال میں گچ تلنے کے خواب دیکھ رہے ہیں، وہ نامراد رہیں۔
٭…٭…٭
سرمایہ کار بے خوف و خطر بلوچستان میں سرمایہ کاری کریں، سرفراز بگٹی
بے شک سرمایہ کارں کو بلوچستان میں بے خوف و خطر آکر سرمایہ کاری کرنے کا جو خواب وزیراعلیٰ بلوچستان دکھا رہے ہیں خدا کرے وہ پورا ہو اور پورے صوبے میں صنعتی ترقی کا جال بچھ جائے جس سے لاکھوں شہریوں کو روزگار ملے گا مگر اس سے پہلے کیا ہرنائی وولن ملز اور چراٹ سیمنٹ پلانٹ اور گڈانی شپ بریکنگ جیسے بلوچستان کے شاندار صنعتی پراجیکٹ کی بربادی کا بھی مداوا کیا جائے۔ ایسے عناصر کی سرکوبی کی جائے جو ان اداروں کو جبری بھتہ اور دھمکیاں دے کر برباد کرنے کے ذمہ دار ہیں اور بعد میں نوجوانوں کو بے روزگاری غربت کے قصے سنا سنا کر ورغلاتے ہیں۔ کوئٹہ میں صرف جلتن گھی مل کی چمنی سے دھواں نکلتا ہے اور سیٹی بجتی ہے، باقی تمام صنعتی ادارے قبرستان کا منظر پیش کرتے ہیں۔ اب سی پیک کے حوالے سے کچھ صنعتی کام اور تعمیراتی کام ہو رہا ہے تو یہی عناصر جو بلوچستان کی پسماندگی کے ذمہ دار ہیں اور اس پر مگرمچھ کے آنسو بہا کر نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہیں، اب ان منصوبوں کے خلاف بھی سرگرم ہیں۔ مسلح دہشت گردوں کو استعمال کرکے گوادر سے لے کر قلات تک وہاں سے ژوب تک افراتفری پھیلا کر ان منصوبوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اب تو ان کی ہمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ بلوچستان کی قدیم صنعت کانکنی کو بھی تباہ کرنے پر تل گئے ہیں۔ ایسی خوبصورت صورتحال میں کوئی گھامڑ یا فاترالعقل ہوگا جو بلوچستان میں سرمایہ کاری کا سوچے گا۔ یہاں تو سرمایے کی کی بات چھوڑیں، جان تک خطرے میں ہے۔ کاریگروں کو مزدور تک کو قتل کیا جا رہا ہے۔ اب جس کو ہو جان و دل عزیز تیری گلی وہ جائے کیوں۔ ریکوڈک اور سینڈک منصوبوں پر غیرملکی سرمایہ کار کمپنیاں آمادہ ہیں مگر معاہدوں کے باوجود خوف کی فضا قائم ہے جسے بہتر صورتحال نہیں کہا جا سکتا۔ پہلے ان مسلح دہشت گرد جتھوں کو نکیل ڈالیں پھر سرمایہ کار خود بخود بلوچستان آئیں گے۔
٭…٭…٭
پنجاب کے ہسپتالوں سے کورونا کے دوران ملنے والے وینٹی لیٹرز کچھ خراب، باقی چوری
بات صرف خرابی کی ہو تی تو چلو تسلی رہتی کہ ٹھیک کرالیں گے مگر یہ جو ان میں سے بہت سے چوری ہو گئے ہیں، اب ان کو کہاں سے ڈھونڈ کر لایا جائے گا؟ چوروں نے بھی پوری تیاری کے ساتھ کارروائی کی ہوگی۔ اس وقت پنجاب کے ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی بہت کمی ہے۔ یوں سمجھ لیں جہاں دس کی ضرورت ہے وہاں بمشکل تین موجود ہیں۔ چھوٹے شہروں کی تو بات ہی نہ کریں۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں بھی یہی صورتحال ہے۔ حکومت پنجاب وزیراعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں پنجاب بھر میں جدید طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے۔ وہ خاص طور پر اس طرف بھی توجہ دیں تاکہ وینٹی لیٹرز کی کمی دور کی جا سکے۔ جو وینٹی لینٹرز موجود ہیں ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو کورونا پھیلنے کے دور میں بیرون ملک سے اور عالمی امدادی تنظیموں کی طرف سے عطیہ میں ملے ہیں مگر دیکھ لیں مال مفت دل بے رحم والی ہماری عادت یہاں بھی کام دکھا گئی۔ کچھ چوری کرکے بیچ دیے باقی اکثر خراب ہوئے تو ٹھیک کرانے کی زحمت نہیں کی گئی۔ شاید انھیں بھی کوڑیوں کے دام کباڑ خانے میں بیچنے کی یا نجی کلینکس میں اونے پونے داموں فروخت کیے جائیں گے جو تھوڑی بہت رقم لگا کر ان کو صحیح کرالیں گے اور استعمال میں لائیں گے اور ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی قلت کا رونا رویا جاتا رہے گا۔ اب صوبائی وزیر صحت نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے اس غفلت کی محکمانہ تحقیقات کا حکم دیا ہے، یعنی وہی کچھ فاصلوں سے گرد جھاڑی جائے گی اور پھر وہی پانی میں مدھانی رڑکی جائے گی جس کا نہ پہلے نتیجہ نکلا تھا نہ اب نکلے گا۔ تاہم، پنجابی محاورے کے مطابق، کچھ گونگلوؤں سے مٹی ضرور جھڑے گی۔

ای پیپر دی نیشن