شیطان انسان کا سب سے برا اور کھلا دشمن ہے ۔ شیطان یہی چاہتا ہے کہ وہ انسان کو راہ ہدایت سے دور کر دے اور بندہ احکام الٰہی کی بجائے نفسانی خواہشات کی پیروی کرے ۔ شیطان اس کی بھرپور کوشش کرتا ہے کہ وہ بندے کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے ہٹا کر اپنے راستے پر لے آئے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان پر لعنت بھیجی اور اسے جنت سے نکال دیا تواس نے کہا :اے میرے رب اس وجہ سے کہ تو نے مجھے بھٹکا دیا میں ان کے لیے برے کاموں کو زمین میں ضرور خوشنما بنا دوں گا اور میں ضرور ان سب کو گمراہ کروں گا۔ (سورۃ الحجر)
شیطان مختلف طریقوں سے انسان کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے اور انسان کو احکام الٰہی سے غافل کرتا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کی انسان دشمنی کا ذکر فرمایا ہے اور اس کے ساتھ اس کے وسوسوں سے بچنے کا طریقہ بھی بتایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے یقینا شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھا کرو فقط اس لیے اپنے گروہ کو سر کشی کی دعوت دیتا ہے تا کہ وہ جہنمی بن جائیں۔ (سورۃ الفاطر)
ایک مقام پر ارشاد فرمایا : اے انسانو، کھائو اس سے جو زمین میں حلال ہے اور پاکیزہ چیزیں اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو وہ تمھارا کھلا دشمن ہے وہ تمھیں برائی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ اللہ کے نام پر وہ باتیں کہو جس کے متعلق تمھیں علم نہیں ہے ۔ (سور ۃ البقرۃ)
شیطان آدمی کو جب کسی گناہ کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بندہ اپنے رب کے احکام کے خلاف جانے سے ڈرتا ہے تو شیطان اسے کہتا ہے تو گناہ کر لے انسان سے غلطی ہو جاتی ہے بعد میں توبہ کر لینا اللہ تعالیٰ کو توبہ بڑی محبوب ہے ۔
لیکن ارشاد باری تعالیٰ ہے تو بہ جس کا قبول کرنا اللہ نے اپنے ذمہ لیا ہے وہ ان کی توبہ ہے جن سے بے سمجھی میں گناہ ہو جائیں پھر جلدی سے توبہ کر لیتے ہیں پس یہی لوگ ہیں اللہ جن پر نظر رحمت سے توبہ قبول فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔ (سورۃ النساء)
اس آیت مبارکہ میں شیطان کے اس وسوسے کی تردید کر دی جو وہ کہتا ہے کہ گناہ کرو بعد میں توبہ کر لینا لیکن زندگی کا بھی کوئی بھروسا نہیں کہ گناہ کے بعد توبہ کا موقع ملے بھی یا نہیں ۔