ماحولیاتی تبدیلی اور سموگ سے بچائو کے لیے پنجاب حکومت نے بیکار پڑی لاکھوں ایکڑ زمین پر زرعی جنگل لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نے صوبے کی تمام سرکاری و نجی ہائوسنگ سوسائٹیز پر فوکس کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ منصوبے کے تحت ہائوسنگ سوسائٹیوں میں درختوں کی تعداد بڑھائی جائے گی۔ شہروں کے اندر اور تمام شاہراہوں کے کنارے درختوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ لاہور کے گردونواح میں درختوں کا وسیع حفاظتی دائرہ بنانے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ درخت بڑھیں گے تو انسانی سانس چلے گی، عوام اور اداروں کو مل کر یہ جہاد کرنا ہو گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فضائی آلودگی کے خاتمے میں درخت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں شجرکاری کا شور تو بہت مچایا جاتا ہے مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کا بیّن ثبوت فضائی آلودگی میں روزافزوں اضافہ اور سانس اور آنکھوں کی بیماریاں عام ہونا ہے۔ شجرکاری مہم کے دوران جو پودے لگائے جاتے ہیں دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے انھیں یا تو جانور کھا جاتے ہیں یا وہ خود ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ زرعی زمینوں پر رہائشی کالونیاں بنانے سے جہاں پاکستان کا زرعی رقبہ شدید متاثر ہوا ہے وہیں خوراک میں کمی بھی ہورہی ہے اور ان زمینوں کے ختم ہونے سے بھی فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت پنجاب کا بیکار زمینوں پر جنگل لگانے کا فیصلہ اچھا ہے مگر یہ اسی وقت کارآمد ہو سکتا ہے جب درخت اور پودے لگا کر ان کی کڑی نگرانی کی جائے۔ اس منصوبے کو وفاق کی معاونت سے دوسرے صوبوں تک پھیلانے کی ضرورت ہے تاکہ فضائی آلودگی اور اس سے جنم لینے والی بیماریوں سے پورے ملک کو بچایا جا سکے۔ علاوہ ازیں، پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ صوبائی دارالحکومت کے اردگرد بننے والی رہائشی کالونیوں پر پابندی لگائے کیونکہ شہر کے گرد و نواح میں جتنی زیادہ کالونیاں بنیں گی فضائی آلودگی میں اضافے کے امکانات بھی اتنے ہی بڑھتے جائیں گے۔ اس کام کے لیے صوبے کے تمام شہروں میں تعلیم اور صحت کی بہتر سہولیات کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے تاکہ لوگ دوسرے اضلاع سے نکل کر لاہور کا رخ کرنے کی بجائے اپنے شہروں میں ہی رہیں۔