سندھ کا اپنے حصے کے پانی سے  دستبردار نہ ہونے کا اعلان

Nov 25, 2024

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت سندھ کے پانی کے حصے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی1991ء کے پانی کی تقسیم کے معاہدے کے آئینی تحفظ کا مطالبہ کرتی ہے حالانکہ اس معاہدے میں کچھ خامیاں بھی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی سے آنے والی ممکنہ بربادیوں میں قحط سالی بھی شامل ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق، اگلے ایک دو سال میں پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں پانی کی مزید کمی ہو جائے گی جبکہ 2040ء میں پانی کی اتنی کمی ہوگی کہ دنیا کے بہت سے ممالک خشک سالی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی یا جو کچھ بھی ہو پاکستان میں جس قدر بھی پانی آج میسر ہے اسے سنبھال لیا جائے تو پانی کی شدید کمی اور قحط سالی سے بچا جا سکتا ہے۔ بھارت سیلاب کے دنوں میں پاکستان کی طرف پانی کا رخ موڑ دیتا ہے لیکن جب فصلوں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ پاکستان کی جانب آنے والا پانی روک لیتا ہے مگر بھارت کا بھی سارے پانی پر زور نہیں ہے۔ بارشوں کا اوپر سے نیچے پاکستان کی طرف آنے والا پانی یا بھارت کی طرف سے سیلابوں کے موسم میں چھوڑا جانے والا پانی اگر محفوظ کر لیا جائے تو اس سے ایک تو کم قیمت میں ملنے والی بجلی پیدا ہو سکتی ہے، دوسرے ضرورت کے وقت یہ پانی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اپنے حصے کے پانی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ معاہدے کے تحت سندھ کے حصے میں آنے والا پانی کوئی بھی صوبہ کیسے استعمال کر سکتا ہے جب تک وہ خود اس کے استعمال کی اجازت نہ دے دے۔پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا پانی کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ مراد علی شاہ 1991ء کے معاہدے میں خامیوں کی بات کرتے ہیں۔ اس معاہدے میں خامیاں ہیں اور سارے صوبوں کے تحفظات بھی ہیں تو ایک مرتبہ پھر سارے صوبے بیٹھیں اور معاہدے پر نظرِ ثانی کرلیں۔سیاسی معاملات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اکٹھی ہیں۔ دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت ایک دوسرے کے لیے ایثار کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ایسی ہی روایت ملکی سطح پر بھی قائم ہو تو صوبوں کے باہمی معاملات میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ اسی حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کالا باغ ڈیم کی سب سے زیادہ مخالفت سندھ کی طرف سے کی جاتی ہے۔ یہ ڈیم تعمیر ہوتا ہے تو سندھ کسی بھی دوسرے صوبے کی طرح اس سے استفادہ کرسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اس منصوبے کی سرخیل بن کے اس الزام کو دھو سکتی ہے کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کے لیے بھارت اربوں روپے کی رشوت پاکستان کے بڑے سیاسی قائدین میں تقسیم کرتا ہے۔

مزیدخبریں