خیبر پختونخوا کا ضلع کرم گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل غیر مستحکم صورتحال کا شکار ہے اور قبائل کے مابین ہونے والی جھڑپوں میں پچھلے چند روز میں شدت آئی ہے۔ حالیہ شدت کا باعث جمعرات کو پاراچنار سے پشاور جانے والی مسافر گاڑیوں پر ہونے والی فائرنگ ہے جس کے نتیجے میں کم از کم 43 افراد جاں بحق اور 25سے زائد زخمی ہوئے۔ رواں سال کے دوران کسی ایک واقعے میں جاں بحق ہونے والے افراد کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ زیریں کرم کے علاقے اوچت میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے حملہ کیا جن کی تلاش جاری ہے۔ واقعے کے بعد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے ہدایت کی کہ کرم میں صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے پہلے والے جرگے کو پھر سے فعال کیا جائے۔ علاوہ ازیں، وزیراعلیٰ نے صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم ، متعلقہ ایم این اے، ایم پی اے اور چیف سیکرٹری پر مشتمل وفد کو فوری طور پر کرم کا دورہ کرنے اور وہاں کے معروضی حالات کا خود جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
اطلاعات کے مطابق، صوبائی حکومت کی جانب سے بھیجے گئے اعلیٰ سطح کے وفد کے ہیلی کاپٹر پر کرم پہنچنے پر فائرنگ کی گئی۔ وفد میں صوبائی مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف، چیف سیکرٹری ندیم اسلم چودھری اور آئی جی اختر حیات خان گنڈا پور شامل تھے۔ گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کرم میں سرکاری ہیلی کاپٹر پر فائرنگ پر اظہار تشویش کیا ہے۔ بیان میں انھوں نے کہا کہ کرم میں قیام امن کے لیے سنجیدہ کوششیں بروئے کار لانی ہوں گی۔ صوبائی وزیر قانون کا کہنا ہے کہ سرکاری ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر صوبائی وزیر قانون، چیف سیکرٹری، کمشنر کوہاٹ ڈویژن، ڈی آئی جی کوہاٹ اور ڈی پی او سمیت دیگر اعلیٰ افسروں پر مشتمل وفد کرم کے حالات کا جائزہ لینے اور امن و امان کی بحالی کے لیے جرگے کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے کرم پہنچ گیا۔ علی امین گنڈا پور کی زیرصدارت ویڈیو لنک اجلاس میں ضلع کرم کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ دورہ کرنے والے حکومتی وفد نے وزیراعلیٰ کو ابتدائی رپورٹ پیش کی۔ حکومتی وفد نے پاڑا چنار میں عمائد سے ملاقات میں تنازع کے حل کے لیے تجاویز لیں۔ حکومتی وفد نے ان تجاویز اور مطالبات سے وزیراعلیٰ کو آگاہ کیا۔
ضلع کرم میں عدم استحکام کی یہ صورتحال نئی نہیں اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی طرف سے اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے اب تک ایسی کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں وہاں امن قائم ہوسکے۔ اس علاقے میں عسکریت پسندی، قبائلی تنازعات اور فرقہ واریت نے ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہوچکی ہیں۔ مسئلے کی ایک وجہ زمینی تنازعہ بھی ہے جس کے باعث گزشتہ چند ماہ کے دوران سو سے زائد افراد سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ کرم کے لوگ اس عدم استحکام سے تنگ ہیں اور انھوں نے سڑکوں پر احتجاج کر کے حکومت کو یہ احساس دلانے کی کوشش بھی کی ہے کہ وہ امن و سلامتی چاہتے ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے مابین جو سیاسی رسہ کشی جاری ہے اس کی وجہ سے یہ علاقہ اور اس کے مسائل مسلسل نظر انداز ہورہے ہیں۔
اوچت میں پیش آنے والے مذکورہ واقعے کے بعد 2 قبائل میں فائرنگ سے مزید 30 افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہو گئے۔ فائرنگ کے نتیجے میں یہ اموات اس وقت ہوئیں جب صوبائی حکومت کا اعلیٰ سطح وفد کرم میں موجود تھا۔ پولیس نے بتایا ہے کہ ضلع کرم کی تحصیل زیریں کرم کے علاقے علی زئی اور بگن کے قبائل کے درمیان شدید فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ، بالش خیل، خار کلی اور کنج علی زئی اور مقبل قبائل کے مابین بھی فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ تازہ جھڑپوں میں دکانوں اور گھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ جھڑپوں کے نتیجے میں مختلف دیہات سے لوگ نقل مکانی کر کے محفوظ مقامات پر پہنچ گئے ہیں۔ خراب حالات کے باعث کرم میں تعلیمی ادارے بند ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف سے کرم میں امن قائم کے لیے بیانات دیے جاتے ہیں، وعدے کیے جاتے ہیں، لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید بگڑتا جارہا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جمعرات کو اور اس سے پہلے بھی مسافروں گاڑیوں کے قافلوں پر حملے اس وقت ہوئے جب وہ پولیس اور سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں سفر کررہے تھے۔ کرم کے حساس علاقہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کا یہ حصہ تین اطراف سے افغانستان کے علاقوں سے گھرا ہوا ہے اور یہاں بہت سے عسکریت پسند اور بھاری ہتھیار موجود ہیں۔ یہاں فرقہ وارانہ مسائل بھی ہیں لیکن ان کا کرم میں پھیلی بد امنی میں حصہ کم ہے۔
کرم میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر قابو پانے کے لیے کردار ادا کرنا صرف صوبائی حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ وفاقی حکومت کو بھی اس سلسلے میں آگے آنا چاہیے۔ اس علاقے میں جتنے بھی زمینی اور قبائلی تنازعات ہیں انھیں حل کرنے کے لیے مقامی عمائد سے مدد لی جانی چاہیے اور فرقہ وارانہ مسائل کے حل کے لیے تمام مسالک کے اہم علما کو اکٹھا کیا جانا چاہیے۔ کرم میں جاری عدم استحکام پر جس طرح ملک بھر میں بے چینی پائی جاتی ہے اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہاں لگی ہوئی آگ دیگر علاقوں کا رخ بھی کرسکتی ہے اور خاص طور پر کرم سے ملحقہ اضلاع اس سے بآسانی متاثر ہوسکتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ باہمی سیاسی آویزش کو چھوڑ کر کرم کے مسائل پر توجہ دیں اور جتنی جلد ممکن ہوسکے ان مسائل کا مستقل حل مہیا کریں۔