اسلام دین فطرت ہے اس لئے ہمیشہ رہنے والا دین ہے۔ اس کے تمام اصول و ضوابط انسانی شخصیت، ذہن اور دِل کی استطاعت کے مطابق ہیں۔ بنیادی طور پر اسلام کا فلسفہ انسانیت کی فلاح اور بقا پر منحصر ہے۔ وطن عزیز پاکستان کا قیام اسلام کے انہی سنہری اصولوں کی ترویج کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ ہمیں زمین کے ٹکڑے کی ضرورت تھی جہاں ہم اپنے دینی قاعدوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ ہمارے دانشوروں، سیاستدانوں، مردوں، عورتوں اور بچوں نے اس کے حصول میں مسلسل جدوجہد کی تا کہ ہم ایک اعتدال کی زندگی بسر کر سکیں۔ مگر افسوس کہ جس ملک کو پانے کا اعزاز ہمیں مسرور رکھتا تھا وہ ہمارے لئے لمحہ ¿ فکر بننے لگا۔ ہم دہری زندگی جینے لگے۔ وطن‘ دین اور زمین سے ہماری محبت صرف نعروں تک محدود ہو گئی جبکہ ہمارے افعال اس کے یکسر مخالف ہوتے ہیں۔ ہر سال رمضان، عید میلاد النبی اور دیگر تہوار مناتے ہوئے ہم بڑے عہد کرتے ہیں مگر یہ عہد عمل سے دور ہی رہتے ہیں اس لئے کہ معاشرے کی روش کو تبدیل کرنے والے دانش ور اور سیاستدان اپنا کردار صحیح طرح نہیں نبھا رہے۔
آج حج ہے۔ لاکھوں پاکستانی ہر سال اس عظیم مذہبی فریضے کی ادائیگی کے لئے بڑی محنت سے اکٹھی کی گئی جمع پونجی کے ذریعے حجازِ مقدس کا سفر کرتے ہیں۔ وہاں پہنچنے والا ہر شخص خوش اور رہ جانے والا آنکھوں میں آس کے دیے جلائے جانے والوں کو وہاں حاضری کی درخواست کے ساتھ رخصت کرتا ہے۔ کیا حج صرف اللہ کے گھر کی حاضری ہی ہے یا یہ ہمیں کوئی سبق بھی دیتا ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا تھا کہ
کیا حرم کا تحفہ زم زم کے سوا کچھ اور نہیں ہے
سوچنے کی بات ہے مناسک حج کے دوران جو سبق ہمارے دلوں پر لکھا جاتا ہے ہم اس پر کس حد تک عمل کرتے ہیں؟ اور اپنے رب کے گھر میں اس سے جو عہد کر کے لوٹتے ہیں اس کو فراموش کرتے ہوئے ہمیں ڈر کیوں نہیں لگتا؟ حاجی وہاں آبِ زم زم کی بوتلوں اور کھجوروں کے ساتھ ساتھ روحانی نور‘ باقاعدگی‘ برابری‘ محبت‘ انس اور بندگی کو تقسیم کیوں نہیں کرتے؟ لوگ ایک سا لباس پہن کر سخت گرمی میں طوافِ کعبہ کرتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے حضرت ہاجرہؑ دوڑی تھیں کیوں کہ ان کا بچہ پیاسا تھا‘ لیکن حاجیوں کے پاس تو پانی کی فراوانی ہوتی ہے اور ان کا بچہ بھی پیاسا نہیں ہوتا تو پھر وہ اس دوڑنے کی منطق کیوں نہیں سمجھتے؟ امیر بھی دوڑ رہا ہے غریب بھی‘ بوڑھا بھی دوڑ رہا ہے جوان بھی‘ غلام بھی آقا بھی‘ ولی بھی ابدال بھی‘ خود امام الانبیائ بھی ان راہوں پہ دوڑے ہیں۔ یہاں سب کے ہونٹوں پر ایک ہی کلمہ ہوتا ہے ’اے اللہ ہم حاضر ہیں‘ ہم سب تیری رحمت کے طلبگار ہیں۔
چلو اسی دفعہ حج کے موقع پر ہم فلسفہ ¿ حج کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ شاید ہمارے اعمال میں وہ تبدیلی آسکے جس کا ذکر کتابوں میں ہم کئی بار پڑھ چکے ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی سوچ کی تبدیلی ہوتی ہے۔ اگر سوچ سب کو برابر سمجھنا شروع کر دے تو مساوات کا سبق عملی طور ہماری زندگیوں میں شامل ہو جائے اور ہم حقیقی معنوں میں ترقی کی شاہراہ پر چلنے لگیں۔ مساوات کا سبق ہمیں قانون کے احترام کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ قانون جس کی نظر میں سب ایک ہیں۔ جو سب کے حقوق کا محافظ ہے۔ جو امیر اور غریب کو ایک جیسا جرم کرنے پر ایک جیسی سزا سناتا ہے۔ جو غریب کے بجلی کا ایک بل جمع نہ کروانے پر اس کے گھر کو تاریک نہیں کرتا اور نہ ہی امیر (وزیر) کے بل کی سالوں لمبی اقساط کی منظوری دیتا ہے۔ مجھے پہلے خادمِ اعلیٰ کا لفظ زیادہ نہیں جچتا تھا مگر جب سے انہوں نے اپنے داماد کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا تو مجھ پر اس لفظ کے معنی واضح ہو گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ آغاز ہے اس منزل کی طرف جہاں محمود اور ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔ لوگوں کو ایک واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اگر خادمِ اعلیٰ کے داماد کو پولیس کسٹڈی میں رکھا جا سکتا ہے تو کوئی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں اور فیصلے کا اختیار صرف عدالت کے پاس ہے۔