چھوٹے میاں کی جانب سے گانا صدی کا سب سے بڑا لطیفہ ہے‘ ترجمان بلاول ہاﺅس۔
رونا اور گانا کسے نہیں آتا‘ اگر چھوٹے میاں صاحب نے گانا گا کر محفل لوٹ لی تو اسے لطیفہ قرار دینا تو مناسب نہیں۔ویسے پنجاب فیسٹیول کے دوران چھوٹے میاں شہباز شریف کی جانب سے ”اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم“ سن کر یہی معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹے میاں صاحب خوش گلوئی میں بھی اپنا سکہ جمانا چاہتے ہیں لیکن اس کیلئے انہیں ریاضت کےساتھ اپنے گانوں کی کولیکشن میں بھی اضافہ کرنا ہو گا کیونکہ ایک مرتبہ وہ یہی گانا ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں بھی گا چکے ہیں‘ لگتا ہے چھوٹے میاں صاحب کو صرف یہی ایک گانا آتا ہے یا جالب کی وہ غزل جسے وہ اپنے پبلک جلسوں میں گاتے نظر آتے ہیں۔ ”میں نہیں مانتا‘ میںنہیں جانتا“۔ بلاول ہاﺅس کے ترجمان اعجاز درانی میاں صاحب کے گانے کو صدی کا سب سے بڑا لطیفہ قرار دے رہے ہیں‘ حالانکہ انکی پارٹی لطیفہ گوئی میں ایسے ایسے لطیفے تخلیق کر چکی ہے جن کا نہ صرف پاکستان بلکہ اس صدی کی تاریخ میں بھی کوئی ثانی نہیں۔ بھٹو مرحوم نے نعرہ لگایا تھا کہ عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دیا جائیگا‘ جبکہ انکے جانشینوں نے کپڑا مکان تو کجا‘ عوام کے منہ سے روٹی بھی چھین لی۔آپ نے کشمیر کیلئے ہزار سال جنگ کرنے کا بھی اعلان کیا تھا لیکن انکے جانشینوں نے اسے بھی لطیفہ بنا دیا۔ لطیفہ گوئی دراصل جھوٹ پر مبنی ایک ایسی چھوٹی سی کہانی ہوتی ہے‘ جس پر روتا انسان ہنس پڑتا ہے۔ الیکشن کی آمد آمد ہے‘ خیر سے جلسے منعقد کئے جائینگے‘ وعدے و عید کئے جائینگے‘ ماضی کو بھول جانے کی باتیں ہونگی‘ غلطیوں کو نہ دہرانے کا عہد کیا جائےگا‘ سامنے بیٹھے عوام کو ہمیشہ کی طرح پھر بے وقوف بنایا جائیگا اور خیر سے یہی اس صدی کا ایک اور سب سے بڑا لطیفہ ہو گا کہ عوام پھر انکے جال میں پھنس جائینگے اور ان پر ہنسنے کے بجائے آئندہ پانچ سال پھر رونے دھونے کیلئے تیار ہو جائینگے
٭....٭....٭....٭
ادارکارہ میرا کا ساڑھے چار لاکھ کا کتا چوری ہو گیا۔
یہ کون ہے جو میرا کی لنکا ڈھا رہا ہے‘ پچھلے دنوں انکے پرس سے دس ہزار ڈالر چوری ہو گئے‘ اب ان کا قیمتی کتا چوری ہو گیا۔ بے حد افسوس کی بات ہے کہ ظالموں نے ان کا کتا بھی نہ چھوڑا۔ میرا نے جس ناز نخرے سے کتا پالا ہوگا‘ ممکن ہے بکرے کے گمان میں چور کتا کھول کر لے گیا ہو کہ عید قربان قریب ہے۔ کتا ایک وفادار جانور ہے‘ لیکن میرا کے کتے کا چور کے ساتھ چلے جانا‘ میرا جی کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ انہیں جائزہ لینا چاہیے کہ انکی محبت میں ایسی کونسی کمی رہ گئی کہ انکا کتا بھی ان سے وفا نہ کر سکا اورچور پر بھونکے بغیر اسکے ساتھ چلتا بنا ۔ مغرب زدہ لوگوں میں کتا بہت معزز سمجھا جاتا ہے۔ وہ اسے نہلاتے‘ دھلاتے‘ حتیٰ کہ کپڑے پہناتے اور خوب سیوا کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں کے کتے‘ اس معاملے میں نِرے کتے ہی ثابت ہوئے ہیں‘کپڑے تو دور کی بات‘ نہانا بھی پسند نہیں کرتے۔ اگر زیادہ گرمی ستائے تو زبان نکال کر چھپڑ میں جا بیٹھتے ہیں۔ میرا ایک اچھی خاتون ہیں‘ شادی کا شوق بھی رکھتی ہیں اور کتے پالنے کا بھی‘ دیکھئے ان پر کونسا شوق غالب آتا ہے۔ میرا نے فلمی دنیا میں اپنی ایکٹنگ کے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں‘ وہ لالی وڈ میں بھی کام کر چکی ہیں‘مگر حقیقی دنیا کی ایکٹنگ میں وہ ناکام معلوم ہوتی ہیں ‘ ورنہ انہیں اپنے جیون ساتھی کی تلاش کیلئے اس پروگرام ”کون بنے گا میرا کا پتی“ کی مدد نہ لینا پڑتی۔ بہرحال میرا نے کتے کی ایف آئی آر درج کرادی ہو گی‘ اب ہماری مستعد پولیس انکا کتا برآمد کر ہی لے گی۔
٭....٭....٭....٭
قدیم ترین امریکی تہذیب مایا کے بزرگوں نے پیش گوئی کی ہے کہ دنیا 21 دسمبر 2012ءکو ختم ہو جائیگی۔
ایک امریکی تہذیب ہی اور اسکے اتحادی بچے ہیں اس لئے مایا کے بزرگوں کی یہ پیش گوئی خوش آئند ہے۔ امریکی ایوان صدر سے دمادم کی صدا آرہی ہے اور پاکستانی ایوان صدر کے کنگروں سے ٹکرا کر یہ پیغام دے رہی ہے۔ تیرا کیا بنے گا زرداریا! مایا کے بزرگ لگتا ہے دنیا پر پر گہری نظر رکھتے ہیں کہ امریکہ نے اسے ڈسٹ بن بنا دیا ہے۔ اب اسے 21 دسمبر کی کسی یخ بستہ رات کو ختم ہی ہو جانا چاہیے‘ تیسری دنیا کے عوام تو پہلے ہی قیامت قیامت کر رہے ہیں‘ فرق تو ان شدادوں کو پڑےگا جنہوں نے مفلسوں کی ہڈیوں اور گوشت پر اپنی جنتوں کی بنیاد رکھی ہے اور جنت جنت کھیل رہے ہیں۔ اس دنیا نے کب ختم ہونا ہے‘ بنانے والے نے اسکی کوئی حتمی ڈیٹ کسی کو نہیں دی‘ تو مایا جیسے بے مایہ امریکی بزرگوں کو کیسے علم ہو گیا۔ پاکستان قائم رہے گا‘ البتہ اسکے ”جنتی“ امریکہ چلے جائینگے اور پاکستان کو ممکن ہے مریخ پر شفٹ کردیا جائے۔ داخلے کی شرط یہ ہو گی کہ جس نے حرام نہیں کھایا‘ صرف وہی پاکستانی اس میں داخل ہو سکتا ہے۔
جب ہمارے حکمران اپنے ممدوحوں سمیت 21 دسمبر 2012ءکا شکار ہو جائینگے اور انکے ہمراہ ایک انوکھی جگہ پر قیام پذیر ہونگے تو پاکستان کے لٹے پٹے عوام سے ضرور کہیں گے....
آجاﺅ تڑپتے ہیں ارماں اب رات گزرنے والی ہے
میں روﺅں یہاں تم چپ ہو وہاں اب رات گزرنے والی ہے
٭....٭....٭....٭
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے منگل کو پریس کانفرنس میں شعروں کا بھرپور استعمال کیا‘ انہوں نے کہا کہ جب غلطی پر شرم محسوس ہوتی ہے تو یہ انقلابی عمل ہوتا ہے۔
کائرہ صاحب کی اگر یہ بات مان لی جائے کہ غلطی پر شرم محسوس ہوتی ہے تو یہ انقلابی عمل ہوتا ہے تو پھر پاکستان میں انقلاب کا وجود دور دور تک نظر نہیں آتا ‘ خیر سے تاریخ گواہ ہے کہ آج تک ہمارے کسی سیاست دان کو نہ شرم محسوس ہوئی اور نہ ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے۔ سنگین غلطیوں اور لوٹ مار ثابت ہونے کے باوجود نہ کوئی سیاست دان مستعفی ہوا اور نہ ہی اس نے اپنی غلطی پر شرم محسوس کی۔ کائرہ صاحب نے یہ شعر پڑھتے ہوئے کہ ”پوچھتے ہو تم کہ غالب کون ہے“ چودھری نثار علی خان سے کہا کہ وہ اصغر خان کیس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلہ پر سادہ نہ بنیں‘ تو جناب سیاست کے اس حمام میں خیر سے ہمارے سارے سیاست دان سادہ ہیں‘ عدالت عظمیٰ نے ایک فیصلہ تو سوئس حکام کو خط لکھنے کا بھی کیا تھا‘ جس کا خمیازہ سابق وزیراعظم گیلانی کو بھگتنا پڑا۔ مگر اس پر متعلقین کو شرم آئی نہ غلطی کا احساس ہوا۔