پاکستان میں گزارا زمانہ مجھے یاد ہے، دال اور آلو قیمہ پسند تھے : اوباما !
اوباما نے میاں نواز شریف کے سامنے اپنے پاکستان میں قیام کے دنوں کو یاد کیا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ پاکستان کے حوالے سے تو اگر کوئی مسافر بھی سفر کیلئے تیار ہو تو امریکی خفیہ والے اسے بھی دھر لیتے ہیں اور اسکی انکوائری ہوتی ہے، اوباما نے ایسا کونسا جادو کیا ہے کہ خفیہ والوں نے ان کو پکڑنا تو درکنار دوسری مرتبہ بھی صدر بننے سے روکا تک نہیں۔
رہی بات انکے دل پسند پکوان دال اور آلو قیمہ کی تو ہمیں خوشی ہے کہ اوباما کو پاکستانی دال بہت پسند ہے پہلے تو ہمارے ہاں گھر کی مرغی دال برابر سمجھی جاتی تھی مگر موجودہ حکومت کی مہربانی سے اب دال بھی مرغی کے بھائو بکنے کے بعد ہم اس محاورے میں تبدیلی کا سوچ رہے ہیں اور دکھ اس بات کا ہے ہماری دال امریکہ جناب کے سامنے نہیں گلتی، بار بار التجائوں کے باوجود وہ ہمارے سروں پر ڈرون حملوں کی شکل میں اپنی محبت کی گل پاشی بند نہیں کر رہا۔ ڈرون طیاروں سے برسانے والے پھول اور ان کے جواب میں شہروں میں ہونے والی گل پاشی سے ہمارے بے گناہ عوام کا جو قیمہ بن رہا ہے لگتا ہے وہ بھی اوباما کو آلو قیمہ کی ڈش کی طرح کافی مرغوب ہے۔
بہرحال امریکی صدر کی طرف سے پاکستان میں قیام اور اس کے کھانوں کی تعریف بڑے دل گردے کا کام ہے کیونکہ یورپ اور امریکہ میں تو آجکل پاکستان کا نام لیتے ہوئے بڑے بڑوں کا پِتہ پانی ہو جاتا ہے، اب جو میاں نواز شریف کی دعوت پر اگر اوباما صاحب پاکستان آئیں تو میاں صاحب کو چاہیے کہ ان کے ساتھ مل کر تڑکے والی دال پکائیں اور ساتھ ہی قیمہ بھی یہ گنگناتے ہوئے بھونیں … ؎
تھوڑی سی پیاز ڈالی تھوڑا سا گھی
اور چمچے سے اس کو ہلاتے رہو جی
اس طرح پاکستان اور امریکہ کے ’’اندرون خانہ داری‘‘ تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔ ویسے بھی تو یہ ملاقات صرف دال اور قیمہ کے سلسلے میں ہی تھی، قیمہ بھی ہمارا بن رہا ہے اور دال بھی ہماری نہیں گل رہی۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
دنیا بھر میں سب سے زیادہ نابینا افراد بھارت میں ہیں !
یہ خبر پڑھ کر تو ہمیں اپنی بصیرت پر بھی شک ہونے لگا کیونکہ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ نابینا پن سب سے زیادہ پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ کوئی اخبار اُٹھا لیں، رسالہ اُٹھا لیں، ٹی وی چینل لگا لیں سب میں ہر وقت یہی لکھا پڑھا اور بولا جاتا ہے کہ مہنگائی اتنی ہے، بے روزگاری اتنی ہے، خود کشیاں اتنی ہیں مسائل اتنے ہیں، غربت اتنی ہے مگر حکومت کو کچھ نظر نہیں آتا۔ ارباب اختیار اندھے ہیں سرکاری افسران اندھے ہیں حتیٰ کہ عوام بھی اندھے ہیں جنہوںنے الیکشن میں ان لوگوں کو ووٹ ڈالے تو پھر بتائیں بھلا ہم سے زیادہ اندھے اور کہاں ہو سکتے ہیں۔ 18 کروڑ اندھے اپنے حال سے اور مستقبل سے بے نیاز بھلا اور کہیں نظر آ سکتے ہیں یہ ہماری حال مست مال مست قوم کا اور لیڈران قوم کا کمال ہے کہ ہر طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے چلے جا رہے ہیں۔
کاش ہماری قوم میں بھی کوئی ’’دیدہ ور‘‘ ہوتا، کوئی دیدہ بینا رکھتا جو ان عقل کے اندھوں کی رہنمائی کرتا اور انہیں ذلت و رسوائی کے اس گہرے غار سے نکالتا جس میں وہ اپنی لاپروائی اور بے بصیرتی کے باعث گرے ہوئے ہیں۔ آنکھیں رکھنے کے باوجود جو قوم حالات بدلنے سے قاصر ہو اسے اندھا نہ کہیں تو کیا کہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
بی جے پی نفرت کے بیج بو رہی ہے، ایسی سیاست کے خلاف ہوں : راہول گاندھی !
بھارت کے نوجوان سیاستدان گاندھی خاندان کے سپوت راہول گاندھی میں شاید انکی والدہ کی طرف سے شامل اطالوی خون جوش مار رہا ہے اور وہ بھارت کی نفرت بھری سیاسی فضا میں نفرتوں سے بیزاری کا اعلان کر رہے ہیں اگر وہ روایتی سیاسی بیان بازی سے ہٹ کر واقعی بی جے پی کی نفرت پھیلانے والی سیاست کا گند دور کرنے پر تیار ہیں تو یہ خوش آئند بات ہے۔ بی جے پی نے ہندو اور مسلم کی تقسیم، مسلم کش اقدامات اور پاکستان سے نفرت کی سیاست سے جو شہرت پائی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
مگر یہ حقیقت بھی تو بہت تلخ ہے کہ خود راہول گاندھی کی اپنی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کا دامن بھی مسلم کش اقدامات اور پاکستان سے دشمنی کے حوالے سے کچھ زیادہ صاف نہیں ہے۔
حیدر آباد دکن اور کشمیر میں مسلم دشمن اقدامات آج بھی پاکستان اور بھارت میں تلخی پیدا کر رہے ہیں۔ اب اگر راہول گاندھی نفرت کی سیاست ختم کرنا چاہتے ہیں تو آگے بڑھیں پاکستان اور بھارت کے درمیان نفرت کی دیوار گرائیں، کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کریں تو اس سے نہ صرف پاکستان سے تعلقات بہتر ہوں گے بلکہ خود بھارت کے مسلمان بھی محفوظ ہو جائیں گے اور کسی انتہا پسند جماعت کو ان کے خلاف نفرت پھیلانے کا موقع نہیں ملے گا وہ سب دل و جان سے کانگرس اور راہول گاندھی کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے اور بھارتی سیاست سے انتہا پسندی ختم ہو جائے گی۔