دھرنے کا منطقی انجام تو اسی دن واضح ہو گیا تھا جب شاہ محمود قریشی نے اسحاق ڈار سے مذاکرات کے بعد یہ بیان داغا تھا کہ وزیراعظم اگر استعفیٰ نہیں دیتے تو کم از کم ایک ماہ کی رخصت پر ہی چلے جائیں ۔ اس 180 درجے کے یوٹرن نے دھرنے کے مقاصد کو ایک دم آسمان سے زمین پر پٹخ دیا۔ بیان دینے سے پہلے دھرنے دیگر سٹیک ہولڈرز ڈاکٹر طاہر القادری، شیخ رشید، چوہدری شجاعت، صاحبزادہ حامد رضا کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔اس سیاسی کمزوری ہی کی وجہ تھی کہ اسکے بعد حکومت نے دھرنے کی قیادت کو کمزور جانتے ہوئے تشدد کا راستہ اپنایا اور تقریباً آدھ درجن شہداءسمیت ایک ہزار سے زائد شرکائے دھرناشدید زخمی حالت میں ہسپتالوں میں پہنچائے گئے۔دھرنے کے تابوت میں آخری کیل اس وقت ٹھونکی جب تحریک انصاف کے مرکزی صدر جاوید ہاشمی نے حکومت سے ڈیل پیکیج حاصل کرکے حکومت کے مخالفین اور عمران خان پر پاک فوج سے سازباز کرنے کے الزامات لگائے۔ اس قسم کی وارداتیں رکی نہیں بلکہ محترم عمران خان اور تحریک انصاف نے کراچی اور لاہور کے جلسوں کا اعلان کرنے سے پہلے ڈاکٹر طاہر القادری اور چوہدری برادران سے مشاورت تک نہ کی۔اتنا ہی نہیں لاہور میں ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے میں جس میں دھرنے میں شامل دیگر سیاسی پارٹیوں کے ہزاروں کارکنوں نے خاموش شرکت کی تھی وہاں پر سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے شہیدوں اور سینکڑوں زخمیوں کو خراج تحسین تو درکنار ان کا ذکر تک نہ کیا گیا۔ اسکے بعد ملتان میں ہونے والے عظیم الشان جلسہ اور عامر ڈوگر کی فتح کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال لینا ملتان میں عوامی تحریک اور مسلم لیگ ق کے کارکنوں اور ووٹرز کی توہین ہے، جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ مارچ اور دھرنے میں قربانیوں کی ایسی لازوال داستان چشم فلک پچھلے 67سالہ دور میں نہ دیکھی ہو گی۔ حکمرانوں نے بربریت کے عالمی ریکارڈ توڑے ۔ جنگ عظیم دوم اور ویت نام کی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ بھارت سے 50ہزار زہریلے گیس شیلز درآمد کرکے سیاسی کارکنوں پر چلائے گئے جن کے اثرات دھرنے میں موجود لاکھوں لوگوں میں رفتہ رفتہ نظر آنا شروع ہو گئے ہیں جبکہ دھرنے اور مارچ کے دوران عوامی تحریک اور مسلم لیگ ق کے 5سے زائد نوجوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔1500سے زائد اس دوران میں شرکاءشدید زخمی ہوئے جن میں 500کے قریب کارکنان ہمیشہ کے لیے اپاہج بنا دیئے گئے ہیں جبکہ جون سے لے کر مڈ اکتوبر تک عوامی تحریک اور مسلم لیگ ق کے اکتیس ہزار سات سو چودہ کارکنان کو گھروں اور ریلیوں سے اٹھا کر حکومتی صعوبت خانوں میں پابند سلاسل کر دیا گیا۔ 70دن تک 20ہزار سے لے کر 50ہزار شرکائے دھرنا کو روزانہ کی بنیاد پر تین وقت کا کھانا اور پانی، دودھ اور دیگر روزمرہ کی اشیائے صرف مہیا کی گئیں۔ انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ دھرنے میں شریک بچوں اور نوجوانوں کے لیے عارضی سکولز قائم کیے گئے جب کہ مریضوں کے لیے دو ڈسپنسریاں اور متعدد موبائل ہیلتھ کیئر سینٹر بنائے گئے۔
قارئین! آپ کو یاد ہوگا کہ محترم عمران خان 7بجے شام بنی گالہ سے تشریف لاتے تھے اور الصبح 2سے 3بجے واپس تشریف لے جاتے تھے یہی حال تحریک انصاف کے دھرنے میں شامل شرکاءکا بھی تھا جبکہ چشم فلک نے یہ دیکھا کہ ساون بھادوں کے شدید موسمی اثرات،آندھیاں،بارشیں اور شدید ژالہ باری اور سخت گرم مرطوب موسم بھی جانثارِ طاہر القادری اور کارکنان وحدت المسلمین،سنی اتحاد کونسل، مسلم لیگ ق کے کارکنان کے عزم اور ارادے کو متزلزل نہ کر سکا، ان تمام تلخ حقائق کا پاکستان اور اوورسیز میں موجود ڈاکٹر طاہر القادری کا تھنک ٹینک بغور جائزہ لے رہا تھا اور قارئین نوائے وقت جیسے مو¿قر روزنامہ کے ذریعے میں آج یہ انکشاف کرتا ہوں کہ دنیا بھر سے موصول ہونیوالے تحفظات کو میں نے ہی ڈاکٹر طاہر القادری صاحب تک پہنچایا او رمیں نے ان سیاسی چالاکیوں کا ان کی نظروں میں پردہ چاک کیا۔دراصل ڈاکٹر طاہر القادری عظیم خاندانی روایات کے مالک ہیں کہ اپنا بڑے سے بڑا نقصان بھی برداشت کر لیں مگر ”اُف“تک نہیں کرتے۔ عمران خان صاحب کو 30اور 31اگست کی درمیانی شب یقینا یاد ہو گی جب انکے رفقاءاور کارکنان جلسے کے بعد وہاں سے جا چکے تھے اور اس دوران عوامی تحریک اور پولیس کے درمیان جھڑپیں شروع ہو چکی تھیں ۔خود بقول عمران خان اس وقت انکے ساتھ صرف دو درجن ساتھی موجود تھے۔ حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے سیکرٹری کو حکم دیا کہ دھرنے میں سے 5000شرکاءکو عمران خان کی حفاظت پر مامور کر دیا جائے او رپھر ایسا ہی ہوا، مگر سب کو یہ بھی یاد ہوگا کہ پی ٹی وی پر حملہ کے واقعے کے بعد وہ شاہ محمود قریشی ہی تھے جنہوں نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ پی ٹی وی پر تحریک انصاف کے کارکنوں نے حملہ نہیں کیا تھا وہاں پر موجود دوسرے لوگوں نے ایسا کیا ہے۔ قارئین! میں نے اپنے ایک گذشتہ کالم میں مشورہ دیتے ہوئے عمران خان اور طاہر القادری صاحب کو بتایا تھا کہ کوئی بھی پارٹنر شپ شروع کرنے سے پہلے دونوں پارٹنر اپنے حصے کا ایک ایک کلو نمک کھا لیں تاکہ اتنا کڑوا ہو جائیں کہ کسی ایک کی بات دوسرے کو کڑوی نہ لگے۔ اب آتے ہیں نئی حکمت عملی کی طرف یقینا ہدف وہی ہے صرف کمانڈر نے اپنی حکمت عملی بدلی ہے۔ آج انقلاب کے ثمرات اور رخ تبدیل ہونے پر واویلہ کرنے والے دو قسم کے لوگ ہیں ایک حکمران اور ان سے متعلقہ مفادپرست طبقہ جو عوام میں اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے پر بغلیں بجا رہے ہیں اور تبدیلی کی حکمت عملی کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں جبکہ دوسرے وہ لوگ ہیں جو ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی طرف سے دی جانے والی مارچ، دھرنا اور جلسوں میں تو عملی طور پر شریک نہیں ہوئے ان کا سارا زور ٹی وی چینلز کے سامنے بیٹھ کر یا پھر سوشل میڈیا پر تبصرے پڑھ کر لگتا ہے۔ دراصل یہ دونوں طبقات اس بات سے گھبرا گئے ہیں کہ اگلے دو مہینوں میں پاکستان بھر کے 50چھوٹے بڑے شہروں میں جلسے کرکے اور دھرنے دیکر انقلاب کو ہر شخص کی دہلیز پر پہنچا دیا جائیگا۔ آپ کراچی، سکھر ،بھکر، لاہور کے عوام کو کتنا عرصہ ایک قصباتی شہر اسلام آباد میں بٹھا سکتے ہیں؟ دھرنے کو شہر شہر ،گاﺅں گاﺅں پہنچانے کی حکمت عملی سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ انقلاب کی قیادت کو پاک فوج، آئی ایس آئی، امریکہ اور یورپ کی حمایت حاصل نہیں ہے اور جس دن پاکستان کے 20کروڑ عوام کو شعور اور آگہی حاصل ہو گئی اس دن ہمیں نوازشریف سے استعفیٰ مانگنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی ۔ ہم پاکستان میں پُرامن انقلاب کے داعی ہیں۔ خونیں اور جبری انقلاب سے آپ لوگوں پر اپنا فلسفہ مسلط کر سکتے ہیں مگر شعوری انقلاب کے لیے لوگوں کو ایجوکیٹ کرنا اور شعور دلانا بہت ضروری ہے۔ یقینا عوام محرم الحرام کے بعد ایک واضح تبدیلی دیکھیں گے۔حکمت عملی کی تبدیلی پر کرپشن زدہ طبقہ اور لوٹ مارکرنے والے وزراءکا بُرا وقت آنے والا ہے۔ میری مرحومہ والدہ کہا کرتیں تھیں کہ ”چور کو مال کھاتے ہوئے نہ دیکھو بلکہ مار کھاتے ہوئے دیکھو۔“