ایک آدمی کسی جہاز میں سفر کر رہا تھا۔ اس کا جہاز طوفان میں گھر گیا اور ٹوٹ پھوٹ گیا۔ وہ ایک تختے پر بیٹھ کر ہوا کے رخ کی وجہ سے ایک جزیرے سے آ لگا۔ جزیرے پر اتر کر اس نے ادھر ادھر گھومنا شروع کر دیا تاکہ زندہ رہنے کے لئے پیٹ پوجا کے ذرائع تلاش کر سکے۔ اتنے میں اسے ایک انسان نظر آ گیا۔ ”اس انسان سے اسے کھانا اور لباس مہیا کیا۔ ذرا ہوش بحال ہوتے تو اس نے اس اجنبی انسان سے سوال کیا ”کیا اس جزیرے پر اور انسان بستے ہیں“ ؟ جواب ملا .... ”ہاں ! خاصے انسان بستے ہیں اور انہی کی وجہ سے جزیرے پر چہل پہل رہتی ہے“ اس نے دوسرا سوال کیا ”کیا یہاں انسانوں کی کوئی حکومت ہے ؟“ جواب ملا .... ہاں بالکل ہے .... جہاں انسان بستے ہوں وہاں ان کی کوئی حکومت بھی ہوتی ہے“ جواب سن کر اس نے اپنے محسن انسان سے جس نے اسے کھانا اور لباس مہیا کیا تھا اس سے ایک گزارش کی کہ جا¶ اپنی حکومت سے کہہ دو کہ میں اس کا ”مخاطب“ ہوں۔ اس جزیرے کی چہل پہل کا حال اس واقعہ کے بعد کیا ہوا ہو گا یہ تو معلوم نہیں .... لیکن اس کہانی سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اپوزیشن میں جو بھی لیڈر ہو گا وہ حکومت کا ”مخاطب“ ہی ہو گا اور وقتی دوستانہ کسی بڑے پرخلوص رشتے کی وجہ سے نہیں ہو سکتا۔ موجودہ حکومت کو اس اقتدار کو سنبھالنے کا موقع ملا تھا ایک تو معاشی اعتبار سے جو ٹوٹا پھوٹا جہاز تھا اوپر سے ”سر منڈاتے ہی اولے پڑے“ والے محاورے کے مصداق نواز شریف کو ”مخاطب“ کرنے والا کوئی ایک نہیں بلکہ کئی لوگ سامنے آ گئے۔ اور ان حالات میں ملک میں دھرنوں‘ جلوسوں‘ جلوسوں کی چہل پہل ہو گئی .... یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ سیاسی شعور کی تیزی کے لئے ایک لحاظ سے اچھا ہوا سیاسی شعور ”بیدار ہونا چاہئے لیکن تیز طرار قسم کا سیاسی شعور منفی انداز کا سیاسی شعور ہوتا ہے اور یہی انداز عمران خان کا تھا جو ”کے پی کے“ کو بھول کر پورے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے نکل پڑے .... جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈاکٹر طاہر القادری گلے ملے بغیر ایک شام کو عمران سے علیحدہ ہو گئے۔
کئی دنوں کی ملاقات کی ہے آخری شام
ہے وقت کشتی رواں چیز اب ہوا معلوم
دھرنوں کا شور شرابہ ادھر ادھر ہوگیا۔ نواز شریف کو بھی یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وقت کتنی رواں چیز ہے۔ انہوں نے اپنے تازہ ترین بیان میں یہ کام اچھا کیا کہ اپنے وزراءکو چھلانگیں مار مار کر بیان بازی کرنے سے منع کر دیا۔ ورنہ یہ انداز نواز شریف کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ان کے شروع کے اقتدار کے دنوں میں ان کے بعض اقدامات اور اس سوچ نے کہ یہ بڑی مضبوط حکومت ہے ان کو نقصان پہنچایا تھا اور ان کے کئی ”مخاطب“ اور "Oppositionist" نکل آئے تھے اور اگر پیپلز پارٹی نے جمہوریت کے نام پر ان کا ساتھ دیا بھی تو کتنی احسان مندی کے ساتھ نوازشریف یہ بات اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں اب موجودہ حالات نے جو رخ بدلا ہے اس کا بروقت ادراک اور ازالہ نوازشریف پر فرض ہو چکا ہے اور فرائض کی ادائیگی میں اب نہ تو سستی کی گنجائش ہے اور نہ ہی سیاسی بصیرت کی کسی طور کی کمی ان کے مسائل کے لئے سود مند ہے جبکہ ان کو اپنی ”ٹیم“ پر توجہ دینے کی اشد ضرورت اپنی جگہ ہے۔ حالانکہ یہ سچ ہے کہ ان کے اردگرد کے چند لوگ ان کی تعریف و توصیف بھی فرماتے رہیں گے اور ابھی بھی ان کی حکومت کی بے حد مضبوطی کی خبر ان کو دے کر یہ بھی کہیں گے کہ حالات اب بالکل نارمل ہو چکے ہیں۔ حالانکہ اس کے برعکس صورتحال یہ موجودہ ہے کہ بجھی ہوئی آگ میں ہر طرف چنگاریاں سلگ رہی ہیں جو بظاہر اتنی واضح طور پر دکھائی نہیں دے رہی ہوتیں مگر موجود ہوتی ہیں۔ نواز شریف کے لئے دھرنے کا استعفے لئے بغیر اٹھنے کی ناکامی کے ”ری ایکشن“ اور اس کے ساتھ ہی عوام کی زندگیوں پر سرمئی بادلوں کی طرح چھائے ہوئے مسائل کے بادل اپنی جگہ موجود ہیں۔
مسلم لیگ ن کو عوام کے ریلیف دینے پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا اور انہیں اب یہ اندازہ ہو گیا ہو گا ”میٹرو بس“ کا پروجیکٹ بھی ان کے گلے میں پڑا تھا کیونکہ گھروں میں چولہا نہ جل رہا ہو اور کھانے کو روٹی نہ مل رہی ہو اور ماں باپ بچوں کی فیسیں ادا نہ کر رہے ہوں تو کروڑوں کے ترقیاتی کاموں کی نسبت بنیادی مسائل کے حل کی طرف توجہ دینا ضروری ہوتا ہے۔ نواز شریف چاہیں تو بنگلہ دیش کی اس سکیم کا جائزہ لے سکتے ہیں جس کے ذریعے عورتوں نے بھی چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کر کے اپنی غربت کا حل نکال لیا تھا۔ لیکن اس قسم کے تمام پروجیکٹس پر ان کے خاندان کے افراد کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے بلکہ انہیں ملک میں موجود غریب تعلیم یافتہ نوجوانوں کا انتخاب کرنا ہو گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح انہیں اپنی ٹیم میں سے کچھ لوگوں پر نظر ثانی کر کے نوجوانوں کو موقع دینے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف چاہیں تو دھرنوں کے وقفے میں ہی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ عوام کو بڑے پراجیکٹ اور انوکھی خوشخبریاں دینے کی بجائے روٹی‘ کپڑا ‘ تعلیم ‘ غربت‘ مہنگائی اور انرجی بحران کے موضوعات پر کام کر کے عوام سے رابطہ بحال کریں اور فوری طور پر تھر میں بھوک سے مرتے ہوئے بچوں کیلئے ضروری اقدامات کریں۔ ورنہ حکومت سے ”مخاطب“ ہونے والوں کی تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔