’پانامہ افشا کاغذات‘‘ سے پیدا ہونیوالے طوفان کی لہریں ابھی تھمی نہیں ہیں حکمران جماعت 250 مبینہ ٹیکس چوروں، دولت ناجائز طریقے سے باہر لے جانے والوں، قوم اور الیکشن کمیشن میں غلط اعداد و شمار پیش کرنیوالے سیاستدانوں، کرپٹ مافیا کے کسی ایک فرد کیخلاف بھی کارروائی کا عملی کام شروع نہیں کیا جس کا نتیجہ اپوزیشن کے ’’پانامہ کیس‘‘ میں سخت پارلیمانی زبانی، احتجاجی اور طعنہ بازاری زبان تک جا پہنچا ہے، نہ حکمرانوں نے چار قومی اداروں سے نظر آنیوالی کارروائی شروع کی نہ خلوص نظر آیا۔ یہ میاں نواز شریف اینڈ کمپنی کی ناکامی ہے کہ بیماری کے علاج کے بجائے نیم حکیموں سے علاج اور مشورے کرتے کرتے بند گلی کی جانب ملک اور اپنی حکومت کو لے جا رہے ہیں۔ 2 نومبرکوکپتان کی ضد اور ہٹ دھرمی سے بڑے دما دم مست قلندر کا امکان ہے۔ یہ اسلام آباد راولپنڈی کے 20 راستوں پر ہو سکتا ہے۔ سرکاری سکیورٹی انتظامات پر کم ازکم ان دو شہروں میں ایک ارب روپیہ خرچ ہو گا۔ سرکاری فورس راستے بند، اسلام آباد بندکرنے سے روکے گی مختلف مقامات پر تشدد جھڑپیں، شیلنگ، لاٹھی چارج جوابی کارروائیاں، مار دھاڑ ہو گی نتیجہ 126 دن کے دھرنے کی طرح جوانوں سرکاری اہلکاروں کی جانیں بے گناہ ضائع ہونے اور بڑی تعداد میں زخمی، قید ہونے کا نکلے گا۔ آخر اس تمام ملکی عدم استحکام و سلامتی کے چیلنجوں میں نقصان پاکستان کا بھی ہو گا اور حکمران تواسکی زد میں آئینگے۔ نوجوانوں کی ہلاکتیں یا شدید زخمی کی تعداد سے کیا حاصل ہو گا؟ عمران خان اینڈکمپنی تو جنرل راحیل شریف اور کورکمانڈرز کے ’’ڈان سکیورٹی راز افشا‘‘ کے تناظر میں حکمرانوں سے ناراضی کو کیش کرانے کا نادرموقع ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ پہلے بھی دھرنا تحریک میں ایمپائرکی انگلی اٹھنے کا بار بار اعلان کرتے رہے اب بھی کہیں نہ کہیں یہ امید برقرار ہے کہ لوہا گرم ہے ایک وار نواز حکومت پر کر ڈالو! نواز حکومت جرنیلوں کے سامنے زیادہ مضبوط نہیں ہے جو بدقسمتی ہے اور خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ’’حکومت اور چار نورتنوں‘‘ کی ثابت شدہ تاریخ ہے۔ ماضی کی دو حکومتیں بڑے بھینسوں کو رنگ میں اُترکرلال جھنڈا دکھانے کی ہے نتیجہ دونوںمربتہ جبری فارغ! 1993ء اور 1999ء مشرف، کاکڑ فارمولا! انتہائی خوش قسمتی یہ ہے کہ فوجی ہائی کمانڈ فوجی ٹیک اوور کو نقصان دہ سمجھتی ہے ورنہ اسمبلی اور ریڈ زون حملے اور قبضے میں 2014ء کپتان قادری نے کام انتہا تک پہنچا دیا تھا لیکن جنرل راحیل شریف اور سینئر جرنیلوں نے نواز حکومت کو رخصت نہیں کیا۔ عوام حکومت سے مزید کیا توقع رکھتی ہے۔ کئی مرتبہ حکمرانوں کے اللوں تللوں، کرپشن، پاور سیکٹرز، عوام دشمن آئین دشمن کارروائیوں سے بڑے نظریاتی جمہوری پڑھے لکھے بھی ناک ناک تنگ مگر نواز حکومت کی رخصتی کی تمنائیں کرتے ہیں لیکن سینئر فوجی جرنیل آج تک نرم گرم تعلقات کار اور فوج کے خلاف مذموم مہم کے باوجود مارشل لاء کا راستہ نہیں چننا چاہتے۔ اگر حکمران اور سیاستدان ہی اپنی اپنی اقتدارکی جنگ میں پاکستان کو ہی تماشا بنانے پر تُل جائیں تو صبرکا دامن کب تک تھاما جائے؟ حکومت 250 کم و بیش جو بھی پانامہ کے ملزمان ہیں ان کو عدالتی، نیب، ایف آئی اے، خفیہ اداروں کی کاروائیوں میں لانے میں کیوں ناکام ہے؟ کیوں آف شور کمپنیوں میں اربوں روپے کا حساب نہیں لیا جا رہا ہے؟ اگر شریف فیملی اور دیگر 30 بڑے گروپوں نے اپنے کاروبار سے یہ رقوم کمائی تھیں تو ڈرکاہے کا؟ اداروں اور عوام کو خود سارا حساب دیدیں! چھ ماہ سے زائد احتساب ہی شروع نہ ہونا باعث شرم ہے۔
حکمرانوں کیلئے یہاں جائزآمدنیوں والوں کو سرکاری ادارے 50 لاکھ سے ایک کروڑکی آمدنیوں جائیدادوں پر ہزاروں نوٹس اور سخت کارروائیاں کرتے ہیں۔ کپتان اور عقابوں نے زبان اور تلخ ردعمل سے بحران بڑھا دیا ہے یہ بے وقوفی ہے، آگ لگے گی توحکمرانوں کے دامن تک شعلے جائینگے، جو کھونا ہے حکمرانوں نے کھونا ہے، اپوزیشن تو ہوتی حکمرانوں کا بیڑہ غرق کرنے کیلئے ہے۔ خواجہ آصف، طلال چوہدری، خواجہ سعد رفیق، دانیال عزیز، رانا افضل وغیرہ جیسے لوگ دھنیا پیئیں تاکہ دماغ سے گرمی ختم ہو! وزیراعظم نواز شریف بھی تنگ آ کر لہجہ عامیانہ کر رہے ہیں جو انکے 30 سال کے ریکارڈ کے خلاف ہے۔ آخری بات یہ کہ … نومبر تک جنرل راحیل شریف ایک سال توسیع ملنے یا نیا چیف مقرر ہونے تک تمام سیاستدان اور خصوصاً حکمران عدالتی ٹی او آر، سینٹ بل، قابل عمل اپوزیشن پارلیمانی مطالبات سے بحران ٹالیں دو نومبر اور بعد جرنیلوں کے امتحان نہ ہی لیں تو احسان ہو گا۔
اسلام آباد دھرنا
Oct 25, 2016