23 اکتوبر امریکی قائم مقام انڈر سیکرٹری ایڈم زوبن نے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کا بازو زور سے پھر مروڑا ہے… مگر نہایت دلچسپ پراسرار سا معاملہ بھی ایک سامنے آگیا ہے۔ ڈان میں سرل المیڈا کے ذریعے 6 اکتوبر کو جو سٹوری شائع ہوئی تھی اس سٹوری میں بیان کئے گئے سیکرٹری خارجہ کے آئی ایس آئی چیف کے سامنے موقف اور ایڈم زوبن کے آئی ایس آئی کو وارننگ دیتے سرد لہجے میں کیسی یکسانیت اور ہم آہنگی ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ محترم میاں نواز شریف کا اصلی مقصد صرف امریکی و بھارتی عزائم کو فوج اور آئی ایس آئی کے سامنے لانا تھا منفی نہیں تھا مگرفوج میں کافی تلخی ہے اور وزیراعظم سے بھی تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ فوج کے خلاف موجود پراسرار کرداروں کے خلاف کارروائی کریں۔ مگر فوج اور آئی ایس آئی ’’کھل‘‘ کر انڈر سیکرٹری ایڈم زوبن کے ’’سامنے‘‘ آنے کا کیا علاج کر سکتی ہے؟ اپنی حکومت پر غصہ بجا مگر امریکی غصے، تقاضے، ایجنڈے پر انکار کی ہم میں جرأت ہے؟ ہاں اب ہے۔ پہلے نہیں تھی۔
’’نومبر‘‘ اتنی ہی تبدیلی لاتا ہے جتنی اکتوبر۔ ذرا غورکریں امریکی صدارتی انتخابی مہم میں امریکی گندے مزاج اور عزائم کا کونسا بدنما چہرہ ہے جو اب مخفی ہے۔ جب پہلی بار بش جونیئر نے انتخاب لڑا تب خلیجی سرمایہ کاری کو سکیورٹی پرابلم کہا گیا۔ متحدہ عرب امارات نے امریکی سیاسی عرب دشمن روئیے کو محسوس کیا ان بندرگاہوں کے حاصل شدہ ٹھیکے چھوڑ دئیے تاکہ امریکی سیاست مطمئن ہو جائے۔ مگرکیا امریکی سیاست نے عرب دشمنی چھوڑ دی؟ امریکہ کی وجہ سے بھی آج ہماری سیاست اور پارلیمنٹ ’’بچ بچاؤ‘‘ کا راستہ اپنا رہی ہے۔ شاید نواز شریف کا موجودہ طرز فکر امریکہ سے خود کو‘ فوج کو‘ آئی ایس آئی کو ’’بچانا‘‘ بھی تو ہو سکتا ہے۔ فوج اور آئی ایس آئی کے ’’پر‘‘ کاٹنا مقصود نہیں ہو گا۔ مگر امریکہ نے یہی مقصد صدر زرداری کے ذریعے حاصل کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی تھی۔ امریکہ کے اس خود غرضانہ ایجنڈے نے بظاہر فوج اور نواز شریف حکومت میں بہت تلخی پیدا کر دی ہے کہ مفاہمت عنقا نظر آتی ہے۔ اکتوبر 99ء نواز شریف کیلئے بہت تلخ احساسات کا بانی ہے۔ اکتوبر ہی میں امریکی جمہوریت کا نظام دو صدارتی امیدواروں میں ہوتی سیاسی جنگ میں اخلاق باختہ و جنسی رازوں کا سیاسی استعمال بھی سامنے لا چکا ہے اور پاکستان و مسلمان و سعودی و عرب دشمن روئیے بھی ظاہر کر چکا ہے۔ پروفیسر غنی (0301-5517919) اسلام آباد میں چھ ماہ پہلے کہہ چکے ہیں کہ نومبر ’’عقرب‘‘ شخصیات کیلئے سیاسی دروازے اور خوش قسمتی کھول رہا ہے یہ پاکستان میں ’’بھی‘‘ ہے اور امریکہ میں بھی ہے۔ اکتوبر عمران خان کی بھرپور عوامی پذیرائی اور منتظم و مدبر شہباز شریف کے تدبر و فراست کے سامنے آنے اور بھرپور استعمال ہونے کا مہینہ ہے۔ کیا ہیلری کی طرح پاکستان میں بھی ’’نومبر کا بنیادی‘‘ فیصلہ ساز تبدیلی لا سکتا ہے۔ علمائے افلاک و نجوم اور نجوم سے بے خبر فقیر اور قلندر بھی اس امکان کو محسوس کر رہے ہیں کہ جو کچھ اکتوبر میں ہوتا رہا ہے وہ امریکہ کی طرح پاکستان میں بھی نومبر سیاسی قیادت کے ’’نئے‘‘ ظہور کے ذریعے کر سکتا ہے لہٰذا پارلیمنٹ اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بہت زیادہ احتیاط اور تدبر و فراست کا رویہ اپنانے کی شدید ضرورت ہے۔ فوج اور آئی ایس آئی یقیناً جنرل مشرف کی طرح اب امریکی ایجنڈے کے غلط مطالبے قبول نہیں کرینگے۔ امریکہ کی شکست کو افغانستان میں فتح بنانے اور ’’عظیم تر بھارت‘‘ کے مسلمان و پاکستان دشمن وجود کو تشکیل دیتے امریکی عزم میں مددگار بننے کے کوئی آثار موجود نہیں ہیں لہٰذا متوقع تلخیوں میں پاکستان پر بھارتی و امریکی شب خون کے خطرات موجود رہیں گے۔ بہت مختصر مگر مہلک جنگ پاکستان کا راستہ دیکھ رہی ہے بطور خاص جون 2017ء تک۔ 2017ء کا سال پاکستان کو بہت زیادہ تدبر و فراست اور زمینی حقائق کے ادراک کے ساتھ اپنی عسکری، اقتصادی اور سیاسی حیثیت اور اوقات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے چاہئیں بطور خاص فوج کو جس کا قومی ہیرو بنا آرمی چیف مدت ملازمت و عہدہ پوری کرنے جا رہا ہے۔ امریکہ اسی لئے آئی ایس آئی پر یلغار کئے ہوئے ہے کہ ’’آنے‘‘ والے چیف کو ابھی سے ’’مہذب‘‘ بننے پر مجبور کر دیا جائے اور اس کام کیلئے سیاسی حکومت اور نواز شریف کے معاونین و وزراء کو جلدی جلدی استعمال کر لیا جائے۔ مگر اس کا شدید ’’خاکی ردعمل‘‘ بھی آ سکتا ہے جس کا ظہور اختتام اکتوبر و نومبر میں ممکن دکھائی دیتا ہے۔ کیا شہباز شریف اس مدوجزر میں اس بھنور میں اپنی ڈیمیج کنٹرول فطری صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ نواز شریف حکومت، خود کو اور مسلم لیگ (ن) کو پہنچا سکتے ہیں؟ کیا نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی کی عقل مندی کو زیادہ وسیع راستہ دے کر استعمال کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر چودھری پرویز الٰہی کی نئی سیاست کے کھل کر نمودار ہونے کے تلخ گھونٹ پینے کو تیار رہئے یہی پھر نوشتہ دیوار ہے۔ نواز شریف اور سیاستدان امریکی دھوکے بازی، فراڈ اور لوٹ لینے، معاہدے کرکے مکر جانے کے قدیم و جدید امریکی و برطانوی رویوں پر غور کر سکتے ہیں۔ کہ کس طرح برطانیہ و فرانس نے پہلے شریف مکہ کو عرب ملک کا بادشاہ بنانے کا حکم دیا پھر کس طرح شام میں علوی اقلیت کو اقتدار اور فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کو بنا دیا؟ کتنا بڑا دھوکہ برطانیہ عظمیٰ کی طرف سے عربوں کے ساتھ؟ پھر پون صدی استعمال کرنے کے بعد کس بے رحمی سے سعودی عرب کو امریکہ نے دھوکے دئیے۔ کس طرح افغانستان پر جنگ اسامہ کے نام پر مسلط کی؟ کس طرح دھوکے اور فراڈ سے جنگ کویت میں مالدار عربوں کو دولت لوٹنے اور سرزمینوں پر عسکری قبضے کا کھیل کھیلا گیا مگر سادہ لوح اور عیاش عرب اس کھیل کو سمجھ ہی نہیں پائے۔ کس طرح جھوٹ بھول کر عراق پر جنگ مسلط کی‘ اسرائیل کو محفوظ بنایا اور خود تیل کی لوٹ مار کی اور ایران کو ساتھ ملا کر ایرانی سیاسی ایمپائر کو ’’مسلک‘‘ کے نام پر وقوع پذیر اور نئی شیعہ حکومتوں اور ریاستوں کے قیام سے سنی عربوں بالخصوص سعودی عرب کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے۔ نواز شریف کو اس سفاک امریکی عزم کا تابع فرمان نہیں بننا چاہئے اور فوج کے تقاضوں پر ہمدردانہ غور کرنا اور قبول کرنا چاہئے ورنہ امریکی ’’عزیز ہموطنو…‘‘ کو قبول کرنے اور ان سے بغل گیر ہونے والے سب سے پہلے ہوں گے۔ شریف اقتدار ہوشیار باش ناراض دلوں کو جیت لو ۔ مسلم لیگی ناراض بھائیوں کو اور خاکیوں کو بھی۔