عمران خان کا اپنی دھرنا سیاست کے نتیجہ میں تیسری قوت کے آنے کا عندیہ اور نوازشریف کو وزیراعظم تسلیم کرنے سے انکار
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارے احتجاج سے تیسری قوت آئی تو ذمہ دار میں نہیں‘ نوازشریف ہونگے‘ ہمارے دھرنے کی آڑ میں فوج کو بدنام کیا جارہا ہے‘ ہمیں فوج یا نان سٹیٹ ایکٹرز کی حمایت حاصل نہیں‘ اگر حکومت نے ہمارے خلاف تشدد یا زور زبردستی کا راستہ اختیار کیا تو نقصان حکومت ہی کا ہوگا۔ گزشتہ روز بنی گالہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کے معاملہ میں الزام نہیں‘ کرپشن کے ثبوت موجود ہیں اور تمام انگلیاں وزیراعظم کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ ہمیں احتجاج نہ کرنے کا مشورہ دینے والی اپوزیشن کے لوگ خود کرپٹ ہیں اور جانتے ہیں کہ نوازشریف کے بعد انکی باری آئیگی اس لئے وہ وزیراعظم کو بچارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نوازشریف کو سزا دیگی مگر ہم ان سے استعفیٰ یا تلاشی مانگ رہے ہیں اس لئے سپریم کورٹ اپنا کام کرتی رہے‘ ہم تو اداروں کے اختیارات کیلئے نکلے ہیں۔ ہم احتجاج تیسری قوت لانے کیلئے نہیں کررہے۔ انکے بقول جب ادارے انصاف نہ دیں تو پرامن احتجاج ہمارا حق بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے میڈیا سیل نے فوج کیخلاف پراپیگنڈا کیا جبکہ ہماری فوج ایل او سی اور سرحدوں کی حفاظت کررہی ہے۔ انکے بقول 2 نومبر کو اسلام آباد میں عوام کا سمندر ہوگا جسے حکومت روک نہیں سکے گی۔ دریں اثناء ڈیرہ اسماعیل خاں میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے الزام عائد کیا کہ آصف زرداری خود ڈاکو ہیں‘ وہ نوازشریف کو کیسے پکڑ سکتے ہیں۔ نوازشریف 30 سال سے کرپشن کررہے ہیں‘ جنہوں نے ایک فیکٹری سے 30 فیکٹریاں بنائیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ وزیراعظم کی بیٹی کے پاس پیسہ کہاں سے آیا‘ کرپشن کا پیسہ منی لانڈرنگ کرکے باہر بھجوایا گیا‘ میں نوازشریف کو وزیراعظم نہیں مانتا۔
اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے عمران خان کو بلاشبہ یہ استحقاق حاصل ہے کہ وہ حکومتی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کریں اور سسٹم کی اصلاح کیلئے آواز بلند کریں۔ انکی جانب سے پانامہ لیکس کی بنیاد پر وزیراعظم اور انکے خاندان کے ارکان پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں‘ انکی بھی لازماً تحقیقات ہونی چاہئیں جن کے درست ثابت ہونے کی صورت میں میاں نوازشریف کا اپنے منصب پر فائز رہنے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔ تاہم یہ سارے معاملات مجاز فورموں پر ہی لائے جاسکتے ہیں۔ حکومتی بے ضابطگیوں کی نشاندہی اور سسٹم کی اصلاح کیلئے آواز اٹھانے کا مجاز فورم پارلیمنٹ ہے جہاں عوام نے اس مقصد کے تحت ہی انہیں مینڈیٹ دے کر بھجوایا ہے مگر انہوں نے آج تک اس مجاز فورم پر عوامی نمائندگی کا حق ادا کرنا گوارا ہی نہیں کیا۔ موجودہ اسمبلیوں کے ساڑھے تین سال کے عرصہ میں وہ خود صرف پانچ بار قومی اسمبلی میں گئے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب انہیں قومی اسمبلی میں طوفان اٹھانا سوٹ کرتا تھا۔ باقی سارا عرصہ وہ پارلیمنٹ کے باہر دھرنا سیاست کرتے رہے ہیں اور اس سیاست کے دوران انکے سمیت پی ٹی آئی کے سارے ارکان قومی اسمبلی و پنجاب اسمبلی استعفے بھی دے چکے ہیں جس سے منتخب ایوان کے ساتھ انکی دلچسپی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم اور انکے خاندان کیخلاف انکی جانب سے لگائے جانیوالے کرپشن کے الزامات پر کارروا ئی کا مجاز فورم عدلیہ ہے جس سے عمران خان اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے قائدین پہلے ہی رجوع کرچکے ہیں اور سپریم کورٹ انکی درخواستوں پر وزیراعظم سمیت تمام فریقین سے جواب طلب کرکے کیس کی سماعت کیلئے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کرچکی ہے۔
اصولی‘ اخلاقی اور قانونی طور پر تو عمران خان کو اب بلیم گیم کی سیاست والی پٹاری بند کرکے ساری توجہ سپریم کورٹ میں اپنے کیس پر مبذول کرنی چاہیے اور وزیراعظم اور انکے خاندان کے ارکان کیخلاف انکے پاس جو بھی ثبوت ہیں‘ وہ سپریم کورٹ میں پیش کرکے عدالتی کارروائی کے منطقی نتائج تک پہنچنے میں معاون بننا چاہیے۔ اگر وہ اپنے ووٹروں کے مینڈیٹ کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں بھی سسٹم کی اصلاح کیلئے کردار ادا کرنے کو تیار نہیں اور سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے باوجود وہ دس لاکھ افراد کو ساتھ لا کر دھرنے کے ذریعے اسلام آباد کو بند کرنے اور حکومت کو کسی صورت چلنے نہ دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں جس کیلئے انہوں نے گزشتہ روز مالاکنڈ میں اپنے پارٹی ورکروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ بھی کیا ہے تو ان کا ایجنڈا حکومتی بے ضابطگیوں کی پکڑ‘ سسٹم کی اصلاح اور بذریعہ عدالتی انصاف وزیراعظم اور انکے خاندان کے ارکان کو سزا دلوانے کا نہیں‘ کچھ اور ہی نظر آتا ہے جو بادی النظر میں ماضی کی طرح کسی ماورائے آئین اقدام کے تحت سسٹم کی بساط لپیٹنے کی راہ ہموار کرنے کا ہے جبکہ اپنے لب و لہجے‘ طرز عمل اور طرز سیاست سے وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں جیسے انہیں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور انتشار والے اس ایجنڈے میں مقتدر حلقوں کی تائید اور سرپرستی حاصل ہے۔ جب انکی جانب سے باربار اس الزام کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ نوازشریف فوج کو بدنام کررہے ہیں جبکہ فوج دفاع وطن میں مصروف ہے تو اس سے ان کا یہ تاثر دینا ہی مقصود ہوتا ہے کہ فوج انکے ایجنڈے کے ساتھ کھڑی ہے۔ یقیناً اس تاثر کو تقویت پہنچانے کیلئے ہی انہوں نے اسلام آباد دھرنے کیلئے اس وقت کا انتخاب کیا جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی اپنے منصب سے ریٹائرمنٹ قریب ہے۔ اسی بنیاد پر غیرجمہوری سوچ کے حامل حلقوں کی جانب سے یہ شوشے چھوڑے جارہے ہیں کہ عمران خان کی اسلام آباد والی دھرنا تحریک آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے پہلے پہلے موجودہ حکومت کے دھڑن تختے پر منتج ہوگی اور پھر آرمی چیف کو اپنے منصب پر توسیع لینے کی بھی ضرورت نہیں پڑیگی۔ گزشتہ روز عمران خان نے اگر بلاول بھٹو زرداری کو مخاطب کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہیں حکومت کیخلاف اعلان کردہ اپنے دسمبر کے لانگ مارچ کی ضرورت نہیں پڑیگی کیونکہ اس وقت تک حکومت ختم ہوچکی ہوگی تو درحقیقت وہ یہی تاثر دینا چاہتے ہیں کہ دھرنے کے نتائج کے حوالے سے ان کا مقتدر حلقوں کے ساتھ مک مکا ہوچکا ہے۔
عمران خان نے اپنی گزشتہ دھرنا تحریک کے دوران بھی امپائر کی انگلی اٹھنے کے ذومعنی فقرے ادا کرکے فوج کی حمایت حاصل ہونے کا تاثر دینے کی کوشش کی تھی جس پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کیلئے پریشان کن صورتحال پیدا ہوئی اور انہیں آئی ایس پی آر کے ذریعے خود اس امر کی وضاحت کرنا پڑی کہ ان کا کسی قسم کی سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہے اور باہمی سیاسی اختلافات سیاست دانوں نے خود طے کرنے ہیں۔ اب آرمی چیف کی اپنے منصب سے ریٹائرمنٹ کی تاریخ قریب آنے پر عمران خان سپریم کورٹ میں دائر اپنے کیس کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی دھرنا تحریک کے نتیجہ میں حکومت کے گرنے کے دعوے کئے چلے جارے ہیں تو درحقیقت وہ اپنی باڈی لینگویج سے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اپنے کندھے تھپتھپائے جاتے ہی دکھانا چاہتے ہیں۔ وہ خدا ئی خدمتگار کی طرح جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں فوج کی مفت وکالت کرکے درحقیقت اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ انکے اس پراپیگنڈے سے آرمی چیف کیلئے ہی پریشان کن صورتحال پیدا ہوگی جو اپنے منصب میں توسیع نہ لینے کا آٹھ ماہ قبل اعلان کرچکے ہیں۔ اس صورتحال میں عمران خان کا یہ کہنا بھی معنی خیز ہے کہ انکی تحریک کے نتیجہ میں تیسری قوت آئی تو اسکے ذمہ دار نوازشریف ہی ہونگے‘ گویا وہ تیسری قوت کو گھسیٹ کر لانے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھے ہیں۔ اسی تناظر میں قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے باور کرایا ہے کہ تیسری قوت آئی تو عمران خان اور نوازشریف دونوں اسکے ذمہ دار ہونگے جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے باور کرایا ہے کہ انتشار کی سیاست والے پھر تماشا لگا کر ملک کی جگ ہنسائی چاہتے ہیں۔ اگر 2 نومبر تک سیاسی محاذآرائی میں شدت پیدا ہوگئی جس کیلئے عمران خان ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں تو خدانخواستہ جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کی تاریخ پھر دہرائی جاسکتی ہے جس سے لامحالہ عمران خان کے اپنے بھی کچھ ہاتھ نہیں آئیگا۔
اس صورتحال میں ضروری ہے کہ نئے آرمی چیف کے تقرر کے معاملہ میں وزیراعظم کی جانب سے کسی گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہونے کا تاثر پیدا نہ ہونے دیا جائے اور وزیراعظم اپنے آئینی اختیارات کو بروئے کار لا کر عمران خان کی دھرنے کی کال سے پہلے ہی لیفٹیننٹ جنرلز کی سنیارٹی لسٹ میں سے کسی ایک کے بطور آرمی چیف تقرر کا نوٹیفکیشن جاری کردیں‘ اس سے جہاں آرمی چیف کے منصب کی توسیع کے حوالے سے مخصوص مقاصد کے تحت پھیلائی جانیوالی قیاس آرائیوں کا سلسلہ بند ہوگا‘ وہیں فوج کی حمایت حاصل ہونے کے تاثر پر مبنی عمران خان کی سیاست کے غبارے سے بھی ہوا نکل جائیگی جبکہ اس سے خود آرمی چیف کیلئے بھی ایسی پریشان کن صورتحال پیدا نہیں ہوگی کہ انہیں عمران خان کی سابق دھرنا تحریک کی طرح اب پھر اپنے معاملہ کی وضاحت کرنا پڑے۔ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر سسٹم کی اکھاڑ پچھاڑ کی سیاست کرنیوالوں کی اب بہرصورت حوصلہ شکنی ہونی چاہیے کیونکہ اس سیاست کی بنیاد پر ہی اب تک سسٹم کو استحکام حاصل نہیں ہو پایا۔ سسٹم کو کمزور کرنیوالے سیاست دانوں سے ملک کی سلامتی کے تحفظ اور عوام کی فلاح کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔