بیگم نصرت بھٹو۔۔۔ایک عہد کا خاتمہ

Oct 25, 2017

بشیر ریاض

23 اکتوبر 2017ء ’’مادر جمہوریت‘‘ اور پاکستان کی سابق خاتون اول محترمہ بیگم نصرت بھٹو کا یوم وفات منایا گیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے شہیدقائدذوالفقار علی بھٹو اور ان کے خاندان نے آمرانہ سوچ کے خلاف، جس عملی جدوجہد کو عظیم الشان قربانیوں سے آراستہ کیا اس میں بیگم نصرت بھٹوکا کردار منفرد ہی نہیں ، بے مثال اور لازوال بھی ہے۔

بیگم نصرت بھٹو کی شخصیت میں جمہوریت نوازی، خدمت انسانیت اور خواتین کو معاشرے میں جائز مقام دلانے کا جذبہ موجزن تھا۔ بیگم نصرت بھٹو کہا کرتی تھیں کہ ’’قومی مصروفیت کے باعث مجھے اپنی گھریلو زندگی قربان کرنا پڑی‘‘۔ بیگم نصرت بھٹو کے اس ایک جملے میں انکی نجی زندگی اور قومی مصروفیات کی مکمل کہانی سمٹ آتی ہے۔ بیگم نصرت بھٹو نے جس طرح پاکستانی خواتین کی قیادت کی، اسکے نتائج واضح شکل میں موجود ہیں۔ ستمبر 1975ء کی بات ہے، جب انہوں نے ایک خصوصی انٹرویو میں مجھے بتایا کہ خاتون اول بننے کے بعد انکے سامنے دو راستے تھے، ایک یہ کہ اپنی توجہ گھریلو امور پر مرکوز رکھیں اور دوسرا یہ کہ ان ضروت مندوں اور محروموں کے مسائل حل کریں جو انکے پاس آتے۔ انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ سیاست میں خواتین کے کردار کے متعلق وہ بہت واضح نقطہ نظر رکھتی تھیں۔ انکا کہنا تھا کہ خواتین نے پہلی بار پیپلزپارٹی کے پرچم تلے آمریت کیخلاف جدوجہد شروع کی۔اس تحریک میں عورتوں نے لاٹھیاں بھی کھائیں۔ ہمارے معاشرے میں عورت سب سے زیادہ مظلوم رہی ہے۔
بلاشبہ بیگم نصرت بھٹو کا وہ عظیم کردار کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے جب ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کرنیوالے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اب انکی پارٹی بھی بکھر جائیگی۔ یہ بیگم نصرت بھٹو ہی تھیں، جنہوں نے ایک طرف اس پہاڑ جیسے غم کو برداشت کیا اور دوسری طرف مایوس اور غمزدہ کارکنوں کو جمع کر کے جنرل ضیاء الحق کی نیندیں حرام کر دیں۔ بیگم نصرت بھٹو سر پر لاٹھیاں کھا کر بھی کارکنوں کے ساتھ رہیں۔ انہوں نے ابتلا ء کے وقت میں ایک ماں، ایک رہنما اور زبردست قوت ارادی کی حامل سیاست دان کا کردار بیک وقت ادا کیا۔ ان کی دلیرانہ جدوجہد جنرل ایوب خاں کے دور سے شروع ہو کر جنرل ضیاء الحق کے دور تک محیط ہے۔ جنرل ایوب خان نے جب ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی حکومت کیخلاف سرگرمیوں پر جیل میں ڈالا تو بیگم نصرت بھٹو اس کیخلاف میدان عمل میں آئیں اور انکی رہائی کیلئے بھرپور مہم چلائی۔ 5جولائی 1977ء کو جب مارشل لاء کے ذریعے بھٹو صاحب کی حکومت غیر آئینی طور پر ختم کی گئی تو اس وقت مارشل لاء کیخلاف سینہ سپر ہوئیں اور قید و بند کی طویل تکالیف برداشت کیں۔انہوں نے کارکنوں میں جمہوری جدوجہد کے جذبے کو زندہ جاوید رکھا۔
جنرل ضیاء الحق کے جبر و ظلم کے تاریک ایام میں وہ بھٹو صاحب کیلئے طاقت کا ستون تھیں۔ اس آمرانہ دور حکومت میں بیگم نصرت بھٹو نے یادگار کردار ادا کیا۔ بیگم صاحبہ نے پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں میں جرأت و ہمت کی لوبجھنے نہیں دی۔ان کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی جبرو تشدد کے باوجود مستحکم ہو کر آمریت کیخلاف سینہ سپر رہی۔ بیگم نصرت بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کیخلاف ایک تاریخ ساز بیان میں اعلان کیا تھا کہ ’’ ہم پاکستان کیلئے نسل در نسل لڑیں گے اور کسی ڈکٹیٹر کے آگے نہیں جھکیں گے‘‘۔ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف جمہوری جدوجہد میں اپنے اس قول کو حرف بہ حرف صحیح ثابت کیا اور پارٹی کے کارکنوں نے بیگم صاحبہ کی قیادت میں جنرل ضیاء الحق کا جس جرأت اور بہادری سے مقابلہ کیا وہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ بیگم نصرت بھٹو عزم و استقلال کا پیکر اور غیر جمہوری قوتوں کیخلاف مزاحمت کی علامت تھیں۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کو جنرل ضیاء الحق کی کارروائیوں کیخلاف پیغام دیا تھا کہ ہمارے سر کٹ تو سکتے ہیں، لیکن جھک نہیں سکتے۔
بیگم نصرت بھٹو کی زندگی دکھوں اور غموں کی الم ناک کہانی ہے۔ زندگی کی آخری دہائی مشکل ترین اور اذیت ناک تھی۔ ان پرکیا گزر رہی تھی، وہ اس کا اظہار بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ ایک عظیم اور باقار ملک کی سابق خاتون اول کو دیکھ کر انکی پیاری اولاد کی جو کیفیت تھی، اس سے وہ بے خبر تھیں۔دبئی میں بیٹی بے نظیرکا گھر ان کا مسکن تھا۔ بی بی ایک فرض شناس بیٹی کی طرح اپنی ماں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ وہ ڈنر ٹیبل پر بیگم صاحبہ کو اپنے اور بلاول کے ساتھ بٹھاتی تھیں۔بختاور اور آصفہ میز کے دوسری طرف سامنے بیٹھتی تھیں۔ بی بی کا معمول تھا کہ کھانے کے بعد بیگم صاحبہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کافی دیر تک ان سے باتیں کیا کرتی تھیں،اس کا جواب بیگم صاحبہ کی خاموشی ہوتی۔ بیگم نصرت بھٹو نے اپنی زندگی میں جہاں اپنے شوہر کی موت کا جان لیوا صدمہ برداشت کیا،وہیں اپنے دونوں جلاوطن بیٹوں میرمرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کی جدائی کا غم بھی برداشت کیا۔ بیگم صاحبہ طویل قید کے دوران پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہوئیں۔ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہیں۔ آخر کار بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے انہیں علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی۔ بیگم صاحبہ22 نومبر 1982ء کو جرمنی کے شہر میونخ پہنچیں۔ ان کی صحت بے حد تشویشناک تھی، وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ دکھائی دیتی تھیں۔ بیگم نصرت بھٹو نے اپنی شدید علالت کے باوجود یورپی ملکوں سے آئے ہوئے پارٹی ورکروں کے ایک اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’پاکستان کے موجودہ حکمرانوں نے ملک میں روایتی ظالمانہ ہتھکنڈوں سے عوام کی جو تذلیل کی ہے،پاکستان کی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی۔آج کے تناظر اور پاکستان کی تازہ ترین تشویشناک صورتِ حال میں بیگم نصرت بھٹو کا مساوات ویکلی لندن کو 5 جنوری 1979ء کو دیا گیا انٹرویو خاص طور پر قابل ذکر ہے، جس میں انہوں نے بھٹو صاحب کیخلاف جھوٹے مقدمہ قتل کے بارے میں کہا تھا: ’’لاہور ہائی کورٹ کی کارروائی سے برطانیہ کی اس بدنام ترین عدالت اسٹار چیمبر کی یاد تازہ ہوجاتی ہے،جہاں انصاف کے تقاضوں کو یکسر پسِ پشت ڈال کر بے گناہوں کو ٹاور آف لندن کے جلّاد کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ اس عدالت میں قانون کا جاہ و جلال نہیں، ایک قصاب کی دکان کا منظر نظر آتا تھا۔ جناب بھٹو کے خلاف یہ قتل کا مقدمہ نہیں، بلکہ مقدمے کا قتل ہے۔ ہم انصاف چاہتے ہیں اور عوام انصاف کے خواہاں ہیں۔ ہم ایسے بے گناہ کی بریت چاہتے ہیں جو اتفاق سے پاکستان کے عوام کا منتخب نمائندہ ہے۔ وفاق اپنے رہنما کیلئے انصاف کا طالب ہے، وفاق سے بریت چاہتاہے ، عوام اس سے کم تر کوئی چیز قبول نہیں کرینگے۔ناانصافی پر مبنی فیصلے کو عوام کی منتخب پارلیمنٹ میں تحقیقات کیلئے پیش کیا جائیگا۔ اگر مارشل لاء نے انصاف کی آبروریزی کی تو پارلیمنٹ اس سازش کی تحقیقات بھی کریگی،جو عوام کے منتخب نمائندے کو عدالتی کارروائی کی آڑ میں قتل کیلئے کی گئی ہے ‘‘۔۔۔ بیگم نصرت بھٹو کے اس تاریخی بیان کی بازگشت آج بھی پاکستان کے سیاسی اور قانون نافذ کرنے والے ایوانوں میں سنائی دیتی ہے۔

مزیدخبریں