اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جہانگیرترین کو عوامی عہدوں کیلئے نااہل قرار دینے کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ آف شور کمپنی کو ٹرسٹ کے نام کرکے اس کے نام پر جائیداد خریدنا ’’غیر قانونی اثاثے کیموفلاج‘‘ کرنے کے مترادف ہے، جہانگیر ترین اور عمران خان کے جوابات ایک ہی آدمی نے تیار کئے ہیں، عدالت کے سامنے پیش کئے گئے ریکارڈ کے مطابق ٹرسٹ کا قانونی طریقے سے قیام عمل میں نہیں لایا گیا، ہم صرف دیانتداری کے نکتہ کاجائزہ لیںگے، وکلاء کے دلائل جاری تھے کہ کیس کی مزید سماعت آج بدھ تک ملتوی کردی گئی ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو جہانگیرترین کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ آف شور کمپنی شائنی ویو لمٹیڈ (ایس وی ایل) ٹرسٹ کی ملکیت ہے جبکہ ٹرسٹ کے نام پر برطانیہ کے علاقے ہمپشائر میں 12 ایکڑ کی رہائشی جائیداد ہے جو برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ہے،ان کا کہنا تھا کہ ان کے موکل نے کاغذات نامزدگی میں اپنے تمام اثاثے ظاہرکئے ہیں ان پر اثاثہ ظاہر نہ کرنے کا غلط الزام لگایا گیا ہے ورجن آئی لینڈ میں واقع آف شورکمپنی نہ تو میرے موکل کی ملکیت ہے اور نہ وہ ٹرسٹ کے مالک ہے اس لئے رہائشی عمارت ان کا اثاثہ نہیں جس کو وہ کاغذات نامزدگی میں ظاہر کرتے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لندن پراپرٹی پر جہانگیر ترین کا کنٹرول نہیں اس پر مطمئن کرنا ہو گا۔ جسٹس عمر عطابندیال نے فاضل وکیل سے کہا کہ رہائشی عمارت خریدنے کے لئے ادائیگی آپ کے موکل نے کی،کمپنی قائم کرکے اسے ٹرسٹ کے نام کر دینا ہے تاکہ اثاثہ ظاہر کرنا نہ پڑے۔جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ جہانگیر ترین پر ایک الزام اپنی آف شور کمپنی چھپا نے اور دوسرا کمپنی سے منسلک اثاثہ چھپانے کا ہے۔ وکیل کی طرف سے آف شور کمپنی شائنی وویوں لمٹیڈ (ایس وی ایل)کی رجسٹریشن اور ٹیکس ریٹرنز کی تفصیلات جمع کرنے پر چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ ہر شخص کو اپنا بھر پور دفاع کرنے کا حق حاصل ہے اور اس کے لئے انہیں جائز وقت بھی ملنا چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہا ہم نے یہ تمام دستاویزات مقدمے کے شروع میں مانگی تھیں تاکہ ریونیو کا تمام ریکارڈ سامنے آئے تاکہ اس کے ذریعے مکمل تصویر کو سمجھ سکیں کہ آف شور کمپنی کیسے اور کس نے قائم کی لیکن ریکارڈ ٹکڑوں میں جمع کیا گیا،اتنی ساری متفرق درخواستیں جمع ہو نے سے مشکلات بھی پیدا ہوئیں‘ لیکن اپنا دفاع کرنا سب کا حق ہے۔ وکیل صفائی سکندر بشیر نے تسلیم کیا کہ آف شور کمپنی 7اپریل 2014ء کو جہانگیر ترین نے قائم کی لیکن وہ ٹرسٹ کے نام کر دی گئی اور جائیداد ٹرسٹ نے خریدی۔ ان کا کہنا تھا کہ 12ایکڑ کی رہائشی جائیداد 22لاکھ 45 ہزار نو سو پائونڈ میں خریدی گئی اور عمارت گرا کر اس کی جگہ 25لاکھ 25ہزار پائونڈ کی لاگت سے نئی عمارت تعمیر کردی گئی۔ انھوں نے بتایا کہ خریداری کے لئے 47 لاکھ پائونڈ کی رقم پاکستان سے قانونی طریقے سے لندن بھیجی گئی جبکہ تعمیر کے لئے زمین گروی رکھ کر بینک سے قرضہ لیا گیا۔ عدالت کے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ رقم فارن کرنسی اکائونٹ پروٹیکشن آرڈننس مجریہ 2001ء کے تحت بیچی گئی اور اس قانون کے تحت فارن کرنسی کی ترسیل کے لئے سٹیٹ بینک کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کے موکل پرالزام ہے کہ انہوں نے اپنی آف شورکمپنی اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کی لیکن جہانگیرترین نے اپنا کوئی اثاثہ نہیں چھپایا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیرترین اورعمران خان کے پہلے جوابات کسی ایک شخص کے تیارکردہ ہیں جس پر سکندر بشیر نے جواب دیا کہ جہانگیرترین کاجواب میں نے تیار کیا تھا۔ جسٹس عمرعطاء بندیال نے استفسار کیا کہ شائینی ویو کمپنی کا ٹرسٹی کون ہے، جس پر جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ ٹرسٹ اور آف شور کمپنی میں جہانگیر ترین کا کوئی اثاثہ نہیں ہے، اس کا ٹرسٹی ای ایف جی کارپوریٹ بینک ہے، 27 اپریل 2011 ء کو ٹرسٹ قائم کیا گیا ، ٹرسٹ کے سیٹلر جہانگیرترین ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کمپنی کے تحت 2 ملین پائونڈ کا رہائشی پلاٹ خریدا گیا، پلاٹ کوگروی رکھ کرگھرکی تعمیرکے کیے قرض لیا گیا، کمپنی کے ذریعے کاروباری سرگرمی نہیں ہورہی۔ان کا کہنا تھا کہ جہانگیرترین کے بچوں میں بھی گھرکاکوئی مالک نہیں ، قرض کی ادائیگی آف شور کمپنی کرتی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ ٹرسٹ دستاویزات رجسٹرڈ ہیں، جس پر سکندر بشیر نے کہا کہ ٹرسٹ کی دستاویز کو رجسٹرڈ کروانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا آف شورکمپنی رجسٹرڈ ہوتی ہے، سکندر بشیر نے جواب میں بتایا کہ آف شور کمپنی رجسٹرڈ ہوتی ہے لیکن ٹرسٹ ڈیڈ خفیہ دستاویزات ہوتی ہے اس کی تفصیل شیئر نہیں کی جاتی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم آف شور کمپنی اورٹرسٹ کو سمجھنا چاہتے ہیں، میرا دماغ ذرا سست ہے چیزیں سمجھنے میں وقت لیتا ہے، مجھے سمجھائیں کہ پیسہ پاکستان سے بہت کمالیا ہے، بچوں کو باہر پڑھانا بھی ہوتا ہے، باہرآنا جانا بھی لگا رہتا ہے کل کو حالات بدل بھی سکتے ہیں، ہمیں بتائیں کہ باہر جائیداد خریدنی ہو تو کیا طریقہ کار ہے۔ ہمیں آف شور کمپنی کی تشکیل کی مکمل تصویر بتائی جائے۔سکندر بشیر نے بتایا کہ ٹرسٹ بنانا کمپنی خریدنا ایک قانونی طریقہ کارہے، سب سے پہلے کمپنی قائم کی جاتی ہے پھر ٹرسٹ بنایا جاتا ہے وہ ٹرسٹ پھر اثاثہ خریدتا ہے، ایک بارٹرسٹ بنا لیاجائے اس کوختم نہیں کیا جاسکتا۔انھوں نے کہا کہ عدالت کوٹرسٹ دستاویز اور جہانگیرترین کے بچوں کے گوشوارے بھی دوں گا لیکن یہ پرائیویٹ دستاویز ہیں انھیں پبلک نہ کیاجائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ تمام فریقین کو دفاع کا موقع دینا چاہتے ہیں، تکنیکی نکات کو کارروائی میں رکاوٹ نہیں بننے دیں گے، پہلے دن ہی کہا تھا کہ تمام ریکارڈ لایا جائے، ہمیں دکھادیں دستاویزات کو پبلک نہ کرنے کا کوئی استحقاق ہے، عدالت کے ریکارڈ طلب کرنے پر کوئی قدغن نہیں ہے، محکمہ مال کاریکارڈ بھی طلب کیاتھا، نہیں معلوم کہ محکمہ مال کا ریکارڈ بھی مکمل دیا گیا یا نہیں جہانگیر ترین کوبتادیں کہ یہ چیز شفاف اور کھلی عدالت میں ہوگی۔ میری آواز اونچی ہوئی تو وہ مطلب لیا جائے گا جو میں کہنا نہیں چاہتا۔ سکندر بشیر نے جواب دیا کہ دستاویزات متفرق درخواست کے ذریعے جمع کروا دیتا ہوں، کم سے کم وقت میں یہ دستاویزات جمع کروا دوں گا۔ دوران سماعت جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ہمیں یہ بتانا ہے کہ جہانگیرترین کا کمپنی پرکنٹرول نہیں ، ان کی ہدایات کا کمپنی پراطلاق نہیں ہوتا، آف شورکمپنی کوپیسہ کون بھیجتا ہے، کیا کمپنی کے لیے قرض کی ادائیگی جہانگیرترین کرتے ہیں۔ جواب میں سکندربشیر نے کہا کہ رقم ٹرسٹی کو بھیجی جاتی ہے اور ا?ف شور کمپنی کو بذریعہ ٹرسٹ فنڈنگ جہانگیر ترین کرتے ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ عوامی عہدہ دارنے غیر قانونی رقم سے ٹرسٹ بنا لیا ہے، جب کاغذات نامزدگی کا وقت آتا ہے توکہتا ہے یہ میرا اثاثہ نہیں ہے۔ جس پرجہانگیرترین کے وکیل نے کہا کہ ٹرسٹ نیو جرسی اور انگلینڈ کے قانون کے مطابق بنایا گیا ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ اس طرح کا ٹرسٹ اثاثوں کو چھپانے کے لیے بنایا جاتا ہے، سکندر بشیر نے جواب میں کہا کہ اس کا جہانگیر ترین کو فائدہ کیا ہوگا، جس پر جسٹس عمر عطاء نے کہا کہ فائدہ یہ ہوگا کہ کاغذات نامزدگی میں اثاثہ بتانا نہیں پڑے گا۔جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ جہانگیرترین نے بچوں کا گھربنایا لیکن وہ بینفیشل مالک نہیں، بچوں کے بجائے جہانگیر ترین نے غیرملکی بینک کے نمائندوں پر اعتبارکیا، بچے صرف گھر میں رہ سکتے ہیں اثاثے کوفروخت نہیں کرسکتے، یہ ساری باتیں سرکے اوپرسے گزررہی ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کمپنی کے لیے رقم کیسے اور کب بھیجی گئی، جس پرسکندر بشیرنے کہا کہ یہ ایون فیلڈزکے اپارٹمنٹ نہیں ، ایون فیلڈ کی کوئی منی ٹریل نہیں آئی، جہانگیرترین نے اپنی قانونی آمدن باہر بھجوائی اورساری منی ٹریل دی ہے۔ بچوں کے گوشواروں میں ٹرسٹ اور کمپنی کو ظاہرکیا گیا۔ جہانگیر ترین کے وکیل کے دلائل جاری تھے کہ عدالت کا وقت ختم ہونے پر مزید سماعت آج بدھ تک ملتوی کردی گئی ہے۔
عمران اور ترین کے جواب ایک شخص نے بنائے‘ باتیں سر سے گزر رہی ہیں: سپریم کورٹ
Oct 25, 2017