عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کی بیل کب منڈھے چڑھے گی؟

شہزاد چغتائی
کراچی کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے میدان مار لیا اورقومی اورصوبائی اسمبلی کی دونوں نشستیں جیت لیں۔ یہ نشستیں صدر عارف علوی اور گورنر سندھ عمران اسماعیل نے خالی کی تھیں ۔تحریک انصاف نے الیکشن تو جیت لئے لیکن ووٹرز کو نکالنے میں ناکام رہی جس کے باعث ضمنی انتخابات میں ووٹنگ کا تناسب تشویشناک حد تک کم رہا۔ قومی اورصوبائی اسمبلی کے دونوں حلقوں میں89سے 87فیصد ووٹروں نے حق رائے دہی استعمال نہیں کیا پاک سرزمین کے امیدوار ارشدوہرہ نے کہا کہ 10فیصد سے کم ووٹ پڑتے تو دوبارہ الیکشن کرانے پڑتے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض پولنگ اسٹیشنوں پر دوپہر تک 100 ووٹ بھی کاسٹ نہیں ہوئے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار آفتاب صدیقی کو ساڑھے پانچ لاکھ میں سے 33ہزار 464ووٹ مل گئے صدر عارف علوی نے کہا کہ ضمنی الیکشن میں ٹرن آئوٹ کم ہوتا ہے صدر نے صبح شہریوں سے نکلنے کی اپیل کی لیکن کسی نے دھیان نہیں دیا 3بجے کے بعد ووٹرز نکلے لیکن برنس روڈ پر ایم کیو ایم ووٹرز نہیں نکال سکی اردو کالج کے پولنگ اسٹیشن پر دوپہر تک صرف 180 ووٹ پڑے جن میں خواتین کے 5ووٹ شامل تھے کلفٹن میں ایم کیو ایم کے کارکن بڑی تعداد میں موجود تھے لیکن ان کو تحریک انصاف کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی جا ری رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی شام کو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اورلکی اسٹار پر تحریک انصاف اورایم کیوا یم کے کارکنوں کے درمیان تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا اوربات نعرے بازی تک محدود رہی۔ایم کیوا یم اورپیپلز پارٹی نے انتخابات نتائج کو مسترد کردیا اوردھاندلی کا الزام لگایا۔ادھر سابق صدر آصف علی کی دھماکہ خیز پریس کانفرنس تحریک انصاف کے حلقوں پر بجلی بن کر گری اورسیاسی حلقوں میں موضوع بحث بن گئی۔ سیاسی پنڈت آصف علی زرداری کے جارحانہ اسٹائل پر ششدر ہیں۔وہ اس بات پر بحث کررہے ہیں کہ کیا پیپلز پارٹی آسانی کے ساتھ عمران خان کی حکومت کا تختہ الٹ سکے گی کیونکہ یہ تو سب جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ آپس میں مل جائیں تو عمران خان کی حکومت دھڑام سے گر جائے گی۔ایک دن پہلے تک پیپلز پارٹی حکومت کو اسپیس دینے کی بات کررہی تھی اورپھر اس نے اچانک یوٹرن لے لیا۔سابق صدر نے نواز شریف سے ملنے والوں غموں کا تفصیل سے ذکر تو کیا۔ لیکن سیاسی ملاقات پر آمادہ ہوگئے۔ اب یہ ملاقات کب ہوگی اورعمران خان کی حکومت کے خاتمہ کی بیل کب منڈھے چڑھے گی یہ کہنا مشکل ہے۔ 2006ء میں میثاق جمہوریت نے دونوں جماعتوں کو ایک کردیا تھا اب پیپلز پارٹی کے سیاسی اتحاد کے خدوخال واضح نہیں۔عدم اعتماد جمہوری طریقہ ہے حکومت گرے گی تو کون حکومت کرے گا آصف علی زرداری کے پاس ایوان میں اکثریت نہیں۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ(ن) کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف کو وٹ نہیں دیا تھا تو کیا مسلم لیگ آصف علی زرداری کی قرارداد کی حمایت کرے گی۔سیاسی حلقوں میںبحث ہورہی ہے کہ آصف علی زرداری نے کس کے اشارے پر نیا کھیل شروع کیا اوروہ کیا چاہتے ہیں۔تحریک عدم اعتماد آئی تو اس کے نتیجے میں سیاسی ماحول کشیدہ ہوگا اورافراتفری پھیلے گی جس کا ملک اورسیاسی نظام متحمل نہیں ہوسکتا

ای پیپر دی نیشن