عمران خان نے کرپشن کے خاتمے کا مشن سنبھالا ہوا ہے۔ بظاہر یہ کہنا کہ کرپشن کا اتنے دن یا اتنے مہینوں میں خاتمہ کردوں گا بڑا آسان ہے لیکن جب اس منظم کرپٹ نظام کے مضبوط و مربوط نیٹ ورک پر ہاتھ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جاتا تھا۔ آپ بہ یک جنبش قلم سے چیزیں ٹھیک نہیں کرسکتے۔ ہر مشکل کام کیلئے بھرپور اورمنظم تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ محض سطحی طور پر نتائج اخذ کرنے سے مشکلات نہ صرف بڑھ جاتی ہیں بلکہ اس میں ناکامی کا بھی خدشہ رہتا ہے۔ مرض کہن ہو‘ تشخیص ٹھیک نہ ہوتو علاج بھی شافی نہیں ہوسکتا۔ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کرپشن جیسا اجتماعی مرض کیسے اور کیونکر لگا ۔ اہل مغرب نے اس پر کس طرح قابو پایا پھر ہم تو ایک آفاقی دین کے پیروکار ہیں ہمارے اندر تو اس کا شائبہ بھی پایا جانا باعث تشویش ہونا چاہئے تھا۔ اگر اہل مغرب یعنی غیر مسلم کرپشن کو برا سمجھتے ہیں تو ان کے نظریئے اور ہمارے نظریئے میں ایک بنیادی فرق ہے وہ اسکو محض اجتماعی سماجی اور اخلاقی برائی سمجھتے ہیں اس کے باوجود انہوں نے اس پر قابو پایا۔ بحیثیت مسلمان ہم اسے ایک بڑے مقصد کی تعمیل اور تکمیل میں بہت بڑا مانع فعل سمجھتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر ہمیں اپنے اللہ کو تمام اعمال و افعال کی جوابدہی کے احساس سے ہمہ وقت فکر مند رہنا پڑتا ہے۔ بددیانتی(کرپشن) حقوق اللہ اورحقوق العباد دونوں کے زمرے میں آسکتی ہے۔ اس کا تعلق اخلاق و کردار کی اعلیٰ صفت سے ہے۔ یہ صفت بیٹھے بٹھائے ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتی سوائے اللہ کے منتخب بندوں کے ‘ اخلاق و کردار اور اوصاف حمیدہ اسلام میں ایک مستقل باب ہے۔ یہ ماں کی گودسے شروع ہوکر خانقاہوں‘ مدارس‘ صالح استادوں سے معاشرے میں پھیلتا ہے اسکی باضابطہ تربیت دی جاتی ہے پہلے زمانوں میں کردار سازی پر ہی سارا زور دیا جاتا تھا۔ حضرت عبد القادر جیلانیؒ بچپن میں ایک قافلے کے ساتھ سفر میں جارہے تھے توان کی والدہ نے انہیں خاص طورپر ایک نصیحت فرمائی تھی کہ بیٹا کبھی جھوٹ نہیں بولنا جب راستے میں ڈاکوئوں نے قافلے کو لوٹنا شروع کیا تو حضرت عبد القادر جیلانیؒ کی باری آئی جب ڈاکوئوںکے سردارنے آپؒ سے پوچھا کہ تمہارے پاس کیا ہے تو آپؒ نے فرمایا میری آستین میں اشرفیاں موجود ہیں۔ تلاش کے باوجود نہ ملیں تو سردار
نے پوچھا ہمیں تو نہیں مل رہی ہیں پھر آپؒ نے ڈاکو سردارکو خود نشاندہی فرمائی ڈاکو بڑا حیران ہوا بولا تم چاہتے تو جھوٹ بول کر لٹنے سے بچ سکتے تھے پھرتم نے سچ کیوں بولا؟ آپؒ نے فرمایا چلتے وقت میری والدہ نے مجھے تاکید کی تھی کہ کبھی جھوٹ نہیں بولنا۔ اس پرڈاکوئوں کا سردارنہ صرف شرمندہ ہوا بلکہ تائب بھی ہوگیا۔ آنحضورؐ کے دور میں ایک شخص آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا کہ میں بہت گناہ گار ہوں مجھے کچھ نصیحت فرمایئے(تاکہ گناہوں سے بچ سکوں) اس پر آپ ؐ نے فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو‘‘ اب ہم اپنے معاشرے کو دیکھیں جس کی اخلاقیات تقریباً تباہ ہوچکی ہیں تو اس میں جھوٹ اس طرح بولا جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ‘ آج ہمارے معاشرے میں جھوٹ کو جھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا کیا بچہ کیا بڑا سب بڑے اعتماد اور استقامت کے ساتھ جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔ نفس کی تین اقسام ہیں نمبر ایک نفس عمارہ یعنی برے کاموں کی طرف مائل کرنے والا نفس‘ نمبر دو نفس لو امہ یعنی اپنی ذات کو ملامت کرنے والا نفس اور نمبر تین نفس مطمئنہ وہ نفس جوعیوب سے پاک ہو۔ہمارے معاشرے میں نفس عمارہ کا رقص ہر کوئی کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے تنقیح قلب اور نفس کشی ایک مسلسل اور مستقل عمل ہے جب گھروں سے تربیت ہی اٹھ جائے بلکہ اب اس کو بے کاروبے فیض مشقت سمجھا جانے لگے تو اسکے نتائج بھی مرتب ہوکر ہمارے سامنے آتے ہیں آج ہماری زندگیوںکا واحد مقصد مادہ پرستی اور دولت کا حصول ہے اس کے لئے ہم تمام اخلاقی قانونی اور دینی حدود بھی پارکرنے کو عیب نہیں سمجھتے۔ علم کا حصول اخلاق و کردار کے سنوارنے سے مشروط نہیں بلکہ دولت کے حصول کے لئے مخصوص ہوچکا۔ عمران خان کے دعوے پر شک نہیںکہ وہ کرپشن کے خاتمے میں مخلص ہیں لیکن ان کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ عوام اپنے حکمرانوں سے اچھائی یا برائی سیکھتے ہیں جب حکمران بددیانتی اور لوٹ مار کریں گے تو اسکے لازمی اثرات عوام پر مرتب ہوں گے۔ عمران خان نے انتخابات میں کامیابی پر قوم سے وعدہ کیا تھا کہ احتساب خود سے اور کابینہ سے شروع کروں گا اس پر انہیں عمل کرنا ہوگا۔ معاشرے سے بدعنوانی کی بیخ کنی کے لئے ملک بھر کے علمائے حق کو جمع کرکے اس کے تدارک کا کوئی ٹھوس اور قابل عمل حل تلاش کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں آئین کے آرٹیکل نمبر31 اور227 پر من و عن عملدرآمد ضروری ہے۔ آرٹیکل نمبر31 تمام مسلمانان پاکستان کو اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلامی طریق زندگی کے مطابق ڈھالنے کی ہدایت حکومت کو دیتا ہے اس پر عملدرآمد کے لئے میڈیا کو استعمال کرنا ہوگا۔ میڈیا کے لئے گائیڈ لائن علمائے حق ہی دے سکتے ہیں۔ معاشرے میں بگاڑ کی ایک بڑی وجہ فلمیں ‘ڈرامے اور دیگر پروگرامز ہیں جو آرٹیکل نمبر31 کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں زرداری دورسے آج تک ایک اورخوفناک حکومتی پالیسی چلی آرہی ہے جس کے ذریعے بھارتی فلمیں اور ڈرامے پاکستان میں دکھانے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ دو قومی نظریئے پر بالواسطہ حملہ ہے کہ بھارتی کلچر کو اسلامی کلچر پر ٹھونسا جارہا ہے۔ یہ اتفاقی عمل نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا بھارتی منصوبہ ہے اس سے ہماری نوجوان نسل اور بچے شدید متاثر ہوچکے ہیں۔ ہم عمران خان سے توقع رکھتے ہیںکہ کرپشن کے خاتمے کی مہم کے ساتھ ساتھ انسان سازی اور کردار سازی کے ٹھوس اقدامات شروع کریں ہم اللہ کو تو مانتے ہیں مگر اللہ کی نہیں مانتے۔ ساری خرابیاں یہیں سے شروع ہوتی ہیں۔