خارجہ پالیسی کے اتار چڑھاؤ

اس میں پاکستان کی ریاست یا کوئی سی حکومت قصوروار نہیں ہے خارجہ امور میں جو نشیب و فراز آرہے ہیں وہ تبدیل ہوتی ہوئی دنیا کا شاخسانہ ہے۔ ’’سر منڈاتے ہی اولے پڑے‘‘ ہیں، مگر قسمت کی بات ہے، جناب عمران خان یا ان کی ٹیم ذمے دار ہرگز نہیں ہے۔گذشتہ نصف صدی میں عالمی حالات کی تبدیلی کا مرکز اور محور افغانستان تھا اور اس بناء پر پاکستان نہ صرف موضوع بحث رہا بلکہ مسئلہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔
مختصر طور پر اس تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔ بھٹو صاحب کے آخری دنوں میں ہی افغانستان میں ظاہر شاہ کا اثر کم اور کمیونسٹ پارٹی کے اثرورسوخ میں نمایاں اضافہ ہونے لگا، جسے روس کی مکمل تائید اور حمایت حاصل تھی، ان ہی برسوں میں روس کی افواج افغانستان میں داخل ہو گئیں۔
لگ بھگ ان ہی دنوں میں پڑوسی ملک ایران کے حالات تبدیل ہونے لگے، بادشاہ کمزور ہوتا گیا اور خمینی بیرون ملک سے باغیوں کی تحریک کی رہنمائی کر رہے تھے۔ آخر کار رضا شاہ پہلوی رخصت ہو گئے اور تہران میں عوام کے سمندر نے خمینی کا خیرمقدم کیا۔ یہاں پاکستان سے بھٹو چلے گئے اور جنرل ضیاء الحق حکمران بن گئے۔ اس دور میں تبدیلی کے عمل میں روس کا اثرورسوخ افغانستان میں بڑھ چکا تھا۔
پاکستان میں فوجی حکمرانوں کا خیال تھا کہ روس کی پیش قدمی نہ روکی گئی تو خود پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرات پیدا ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے حکمت عملی اختیار کی گئی اور امریکہ نے دنیا کو اپنے ساتھ شامل کیا اور ’’افغان وار‘‘ کی قیادت سنبھال لی۔ افغان مجاہدین، دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے ذریعے افغانستان میں آئے، اسامہ بن لادن ان میں سے ایک تھے۔ امریکہ کے سٹنگر میزائل نے افغان مجاہدین کو جنگ میں فوقیت عطا کر دی۔ روس کا شیرازہ منتشر ہو گیا۔ روس ٹوٹ گیا۔ کمیونزم نے آخری سانسیں لیں۔ دنیا میں روس کا اثر زیرو رہ گیا۔ دیوار برلن نیست و نابود ہو گئی۔ امریکہ دنیا کی و احد سپر طاقت بن گیا۔ نیا ’’ورلڈ آرڈر آگیا…!‘‘
نائن الیون نے ایک بار پھر دنیا کی تاریخ کو جھنجھوڑ ڈالا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی، انہوں نے اسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی تھی… امریکہ زخمی شیر کی مانند تلملا رہا تھا۔ اس نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور پاکستان کو مدد کرنے کی ہدایت کی۔ پرویز مشرف کیا کرتے؟… اس غیظ و غضب کی کیفیت میں امریکہ، برطانیہ کے تعاون سے عراق پر بھی چڑھ دوڑا۔ جونیئر بش دراصل سینئر بش کا بدلہ لے رہا تھا۔ اب آج کی صورتحال یہ ہے کہ روس دوبارہ عالمی طاقت بن جانے کا خواہاں ہے۔ چین معاشی طاقت بن جانے کے بعد امریکہ کے مقابل ایک عالمی طاقت کے طور پر سامنے آنے کا خواہاں ہے۔ امریکہ کے حالات مختلف ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ امریکی نیشنل ازم کے حامی ہیں۔ اس بناء پر وہ دنیا میں امریکہ کے وسیع کردار کے حامی نہیں ہیں۔ یہ صورتحال ایک نئے عالمی منظر کو جنم دے رہی ہے۔ سب ممالک اپنے مفادات کے تحت پالیسیاں اور حکمت عملی تبدیل کر رہے ہیں۔ بھارت بھی یہ کر رہا ہے، پاکستان کے معاملے میں اس کا رویہ زیادہ سخت ہوتاجا رہا ہے… جو جنگ کا سبب بن سکتا ہے۔
ایسے تبدیل ہوتے ہوئے حالات میں ہماری خارجہ پالیسی پر دباؤ ہے۔ انڈیا، افغانستان اور ایران سے تعلقات بڑھا رہا ہے۔
ایران نے چاہ بہار کی بندرگاہ بھارت کو دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہم سعودی عرب اور ایران کے حوالے سے کشمکش کا شکار ہیں۔ اس سے بڑی کشمکش امریکہ اور چین کے حوالے سے ہے۔ امریکہ کے ہم پرانے دوست ہیں جو سی پیک کی وجہ سے بھی ہم پر ناراض ہو رہا ہے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے لندن کی پریس کانفرنس میں کھل کر بتلا دیا کہ پاکستان کے خلاف عالمی سازش ہو رہی ہے۔ بھٹو نے کمال کی خارجہ پالیسی کی تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے بے پناہ ہنرمندی سے ہمیشہ بھارت کو نقصان پہنچایا۔ افغانستان جنگ میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے جنرل ضیاء کی ذہانت نے پاکستان کو اہم مقام دلایا۔ جمہوری دور میں حنا ربانی کھر نے حکمت اور دانائی سے پاکستان کے مفادات کی خدمت انجام دی۔
خارجہ پالیسی کرکٹ کا کھیل نہیں ہے، عمران خان نے چھکا لگایا اور کیچ کر لئے گئے… بالیں ادھر ادھر جا رہی ہیں اور شاہ محمود ان کے پیچھے بھاگتے بھاگتے تھک جاتے ہیں۔ خارجہ پالیسی شطرنج کا کھیل ہے، ٹھہراؤ، تحمل، صبر، برداشت ا ور بے پناہ ذہانت؟

ای پیپر دی نیشن