قائداعظمؒ نے کہا تھا میری جیب میں کچھ کھوٹے سکے ہیں۔ لگتا ہے وزیراعظم عمران خان کی جیب میں زیادہ تر سکے کھوٹے ہیں۔ قدرے توقف کے بعد عمران نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دو کی نشاندہی تو کر دی اور اس طور ببانگ دہل اعلان کیا کہ جوش و جذبے کے بھنور میں ان کے اندر کا نیازی بھی تحیر زدہ ہو گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ کون سے رنگ میں امید کا منظر کھینچوں‘ جبکہ صدیق حسن ضیاء کے اس شعر کا دوسرا مصرع ابھی ان کے لئے قبل از وقت ہے‘ ویسے سنانے میں کوئی ہرج بھی نہیں۔ ڈوبنے والے نے ہر موج کو ساحل سمجھا۔ ملک کی اندرونی انتظامی صورتحالات اور منصوبہ بندی کو پیش بندی کے طورپر دیکھیں تو بنظر غائر صاف ایک ہی منظر نامہ دکھائی دیتا ہے کہ ماضی کے گھسے اور پٹے ہوئے سیاستدان جو اپنی پیشانیوں پر ’’لوٹے‘‘ کا لیبل ہٹا کر ’’نئے پاکستان‘‘ کا نشان سجائے عمران خان کے وزیر بنے ہوئے ہیں‘ اس وقت پوری طرح افسر شاہی کے نرغے میں ہیں۔ ایک سطح پر ان دونوں کے مابین گٹھ جوڑ صاف نظر آ رہا ہے۔ موجودہ صورت حالات میں افسر شاہی بلکہ جرات رندانہ کے ساتھ کہنا چاہئے کہ بدنام زمانہ افسر شاہی اور ماضی کے گھسے پٹے وزراء سرجوڑ کر موجودہ حکومت کو جس حکمت عملی کے تحت بھنور زدہ مشکلات سے نکالنے کی تدابیر اختیار کر رہے ہیں‘ وہ غریبوں اور متوسط طبقے پر محصولات اور ٹیکسوں کے بڑھاوے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے جو کافی حد تک حقیقت پسندانہ ہے کہ عمران خان شروع دن سے نچلے طبقے پر ٹیکسوں کے ہوشربا نفاذ کے سراسر خلاف ہیں‘ لیکن بپھری ہوئی بیوروکریسی کہاں باز رہتی ہے‘ وہ مسلسل اس گورکھ دھندے میں مصروف ہے‘ جس کے تحت سابقہ حکومتیں معاشی طورپر منہ کے بل گرتی رہی ہیں۔ نہلے پر دھلا کہ اب اس منہ زور بیوروکریسی کو پرانے کھلاڑیوں کے طورپر وزراء کی ایک بڑی کھیپ بھی میسر آ گئی ہے‘ لہذا ان کا کام انتہائی سہل ہو گیا ہے اور نئے وزراء تو ہیں ہی ناتجربہ کار‘ اس طرح نئے میدان میں پرانا کھیل ہی کھیلا جا رہا ہے‘ یعنی ہر مسئلے کے حل کے لئے غریب اور متوسط عوام پر ہوشربا ٹیکسوں کی بھرمار۔ جو بادی النظر میں تو حکومتی منصوبہ بندی کا ایک معمول کا اقدام لگتا ہے‘ لیکن جب اس کے ردعمل کے طورپر مہنگائی اور گرانی کا سونامی آتا ہے تو عوام کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ کھلی آنکھیں رکھنے والے دیکھ سکتے ہیں کہ غریبوں کی حالت بہتر بنانے کے دعویدار حکمرانوں کے عہد میں نان دس روپے سے پندرہ روپے اور آٹا‘ گھی‘ تیل سمیت تمام اشیائے صرف کی قیمتیں پر لگا کر فضا میں تیر رہی ہیں۔ سبزی اور پھل کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں۔ ہر چیز پر پچاس روپے زائد اور پھر کپڑوں سے لے کر گھر کے استعمال کی ہر شے مہنگی۔ بقول غریب معاملہ یہ ہے نئے پاکستان کی حقیقی تصویر فی الوقت غریبوں کے لئے سوہان روح بنی ہوئی ہے۔
خدا لگتی بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے ذہنی کینوس پر یہ نقشہ نہیں تھا‘ جو ان کے کھوٹے سکوں نے غریبوں کے سر پر کوہ گراں کی طرح مسلط کیا‘ اب اگر پاکستان کا غریب یہ کہے ’’جو کچھ کہ دیکھا خواب تھا‘ جو بھی سنا افسانہ تھا‘‘ تو اس میں کون سی بات جھوٹ ہے۔ گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ وزیراعظم عمران خان نے ایک دو مرتبہ رد کیا‘ لیکن بعدازاں چکنی چوڑی باتیں اور سہانے خواب دکھانے والوں نے انہیں رام کر لیا‘ لیکن جب اس دلخراش اضافے کے نتائج مہنگائی کی بجلی بن کر غریب عوام پر گرے تو عمران خان کے پاس کہنے کے لئے اس کے سوا کیا تھا کہ صبر کرو‘ یہ مشکل وقت بھی گزر جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے نے وزیراعظم کو تاحال امتحان میں ڈالا ہوا ہے اور اب انہوں نے بجلی کی قیمتیں بڑھانے پر بضد افسرشاہی اور وزیروں سے کہا ہے کہ وہ متبادل راستے اختیار کریں‘ غریب عوام سے ان کے جینے کا حق نہ چھینیں۔ کسی بھی محب وطن پاکستانی کے فہم میں یہ بات آسانی سے آ سکتی ہے کہ موجودہ بیوروکریسی سابقہ حکمرانوں کی طرح عمران خان کے کنٹرول میں ہر گز نہیں اور یہ بھی کہ وہ اپنے گھسے پٹے وزراء کے ساتھ مل کر غیر مقبول اور استحصال زدہ فیصلے کر رہی ہے‘ جس سے کم از کم وزیراعظم عمران خان متفق نہیں بلکہ نالاں نظر آتے ہیں۔ دیکھنے والوں کو عمران خان ایک شاطر انسان کی طرح نظر آتے ہیں‘ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس کرپٹ افسرشاہی کے نرغے میں کیسے آ گئے؟ اس کا جواب سادہ سا اور صاف ہے کہ کچھ تو اپنے کھوٹے سکوں یعنی الیکٹیبلز کے ذریعے اور کچھ اپنی حکمرانی اور اقتدار سے ناتجربہ کاری کی بناء پر۔ اس لئے بعض لوگوں کا یہ کہنا صائب ہے کہ عمران خان کو اقتدار کی راہ میں پے در پے تلخ اور کڑوے تجربات ہوتے جائیں گے‘ جس کے بعد وہ اپنے اقتدار میں شریک عناصر کی منفی چالوں سے پوری طرح بہرہ مند ہو سکیں گے۔ اول تو گزشتہ الیکشن سے پہلے الیکٹیبلز کی سیاسی اصطلاح سے وہ پوری طرح باخبر ہی نہیں تھے‘ یہ اصطلاح ان کے منہ میں جہانگیر ترین اور اس قبیل کے قریبی سیاستدانوں نے رکھ دی تھی اور یہ سراسر ان کی غلطی تھی۔ اس سیاسی اصطلاح کے زیر اثر سابقہ حکومتوں کے بہت سے آزمائے ہوئے سیاستدان اور جاگیردار و سرمایہ دار لیڈر ان کی پارٹی کی صفوں میں داخل ہوئے اور الیکشن میں ٹکٹ بھی چونکہ اسی اصطلاح کے زیر اثر ہی تقسیم ہوئے تھے‘ لہذا الیکشن جیتنے کے بعد ان کا وزیر بن جانا کوئی عجوبہ نہیں گردانا گیا۔ عمران خان اس وقت بحیثیت پارٹی لیڈر اور سیاستدان خود پر گزری ہوئی اس واردات کو بہت سے تحفظات کے ساتھ دیکھتے رہے ہیں۔ یہ سیاسی مراحل ماضی کے ایک بہت بڑے سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو پر بھی گزرے تھے‘ جو آگے چل کر نتائج کے طورپر ان کے لئے مضر اور گراں ٹھہرے۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو شہیدہ اگرچہ متعدد بار اقتدار کی مسند پر متمکن رہیں لیکن انہوں نے بھی اس راہ سے اپنی پالیسی نہ بدلی اور انہی لوگوں کو اپنے قریب رکھا جو ان کی دانست میں ’’فن حکمرانی‘‘ کے خوگر تھے۔ یہی ’’فن حکمرانی‘‘ کے حامل ان ہر دو لیڈروں کے ساتھی بالآخر انہیں یکے بعد دیگرے ڈبوتے رہے۔ عوام پر ہوشربا ٹیکس اور محصولات ٹھونسنے میں ان دونوں نے بھی کوئی رعایت نہ کی‘ پھر وہی ہوا جو کھوٹے سکوں والے حکمرانوں کے ساتھ ہوتا چلا آیا ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کا معاملہ خاصا مختلف تھا۔ یہ چند کلیدی نعروں کے ساتھ ایوان اقتدار میں آئے اور وہ غریب کی حالت بہتر بنانے اور کرپشن کو یکسر ختم کرنے کے دعوے تھے۔ عوام نے عمران خان کو ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کی طرح پذیرائی بخشی‘ کیونکہ تاریخ کے ایک دوراہے پر کوئی نجات دھندہ نظر آ گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کو استحصالی قوتوں کے گٹھ جوڑ نے آمریت کے ذریعے ختم کیا‘ یہاں تک کہ انہیں پھانسی کے پھندے پر جھولنا پڑا۔ خدا نہ کرے عمران اور ان کی پارٹی کا انجام بھی استبدادی قوتوں کے زیر اثر ہو‘ لیکن محب وطن پاکستانیوں کے بقول بدشگونی یہ ہے کہ ان کے آنے کے بعد غریب اور متوسط طبقے کا جینا بتدریج محال ہوتا جا رہا ہے‘ ہوشربا ٹیکسوں کے ذریعے پیدا ہونے والی مہنگائی اور گرانی ایک عفریب بن کر عوام کی جان لینا چاہتی ہے‘ پھر اس پر طرہ یہ کہ خود ساختہ مہنگائی کے خاتمہ کی جانب عمران خان اور ان کی حکومت کی نگاہ اب تک نہیں گئی۔ خود ساختہ بداعتدالیوں کی اصلاح کا سارا بیڑہ عدلیہ نے اٹھایا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت تو بقول کسے ابھی تک انتظامی طورپر اپنے پاؤں ہی نہیں جما سکی۔ تحریک انصاف کے ہر دو نعروں پر عملدرآمد نہ ہونا ایک المیہ بن گیا ہے‘ کرپشن کا خاتمہ اب ایک خواب نظر آتا ہے۔ اس کا سارا ٹھیکہ نیب کو دے دینے سے معاملات خراب ہو رہے ہیں۔ بقول سپریم کورٹ نیب سیاست زدہ ہے‘ کچھ مقدمات پر یہ ادارہ سارا زور لگاتا ہے اور بعض کو پوچھتا تک نہیں‘ مقدمات کے لئے کوئی اصول نہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ رئیسانی کیس میں نیب کے بڑوں پر مقدمہ بننا چاہئے‘ نیب گھر سے اربوں روپے نکلنے کے بعد بھی پلی بارگین کے لئے اس کے پیچھے پڑ گیا ہے۔ جسٹس گلزار کا کہنا ہے نیب کرتا کچھ نہیں‘ سب کو عذاب میں ڈال رکھا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کرپشن کا ایک کیس بتائیں جہاں ریکوری ہوئی؟ اصل بات ہی یہ ہے کہ نئے پاکستان کی تعمیر کے لئے پرانے معمار ہی کام کر رہے ہیں‘ اسی لئے عمران خان کے وہ سارے دعوے ہوا میں تحلیل
ہو گئے‘ جن میں انہوں نے کہا تھا کہ منی لارنڈنگ اور لوٹے ہوئے سرمائے کو واپس لا کر پاکستان کو معاشی طورپر پاؤں پر کھڑا کریں گے‘ لیکن اب پتہ چلا کہ جہاں نیب ہو وہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔ لوٹی ہوئی دولت واپس آ جاتی تو عمران خان سعودی عرب سے نو ارب ڈالر کا پیکج کیوں حاصل کرتے؟ یہ لمحہ فکریہ ہے اور سبب اس بداعتدالی کا صرف ایک ہے کہ نئے گراؤنڈ پر پرانے کھلاڑی فرسودہ ذہن کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ مے بدلی اور نہ ہی نظام مے کشی بدلا‘ صرف جام و مینا بدل گیا ہے تو پھر تبدیلی کاہے کی۔