ہندوستان کا ’’ واٹر وار‘‘ کا اعلان

ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کے خلاف اب پانی پر سرجیکل سٹرائیک کیا جائے گا، ہریانہ میں انتخابی جلسوں میں تقریر کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ ہندوستان کے حصے کا جو پانی ندیوں کے ذریعے سرحد پار جا رہا ہے، اسے روک کر ہریانہ کے گھر گھر اور کسانوںکے کھیتوں تک پہنچایا جائے گا۔مودی نے کہا کہ گزشتہ 70سال سے ہندوستان کے حق کا پانی پاکستان جاتا رہا ،اس پانی پر ہریانہ،پنجاب اور راجستھان کا حق ہے اور اس سلسلے میں کام شروع ہو چکا ہے۔قبل ازیں اسی سال مارچ میں ہندوستان کے مرکزی وزیر آبی وسائل کے ارجن میگھوال نے اعلان کیا تھا کہ نئی دہلی نے پاکستان میں داخل ہونیوالے تین مشرقی دریائوں سے 0.53 ملین ایکڑ فٹ پانی رو کتے ہوئے " ذخیرہ کرلیا گیا ہے اور جب بھی راجستھان یا پنجاب کو ضرورت ہو گی اس کا استعمال کیا جائے گا۔ اسے پینے یا آبپاشی کے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستانی وزیر اعظم کے اس اعلان کو محض انتخابی نعرہ قرار دیتے ہوئے نظر انداز کیا جا سکتا تھا کیونکہ مودی کے عالمی سطح پہ طے شدہ متنازعہ ریاست کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے ہندوستان میںمدغم کرنے کے اقدام سے واضح ہوا ہے کہ انتہا پسند ہندو گروپوں کی نمائندہ ’ بی جے پی‘ کے نریندر مودی وزارت عظمی کی دوسری معیاد میںمعاملات کو انتہا پسندانہ طور پر جابرانہ انداز میں پورا کرنے کی پالیسی پہ عمل پیرا نظر آتے ہیں۔
جنرل پرویزمشرف کے دور حکومت میں ایک اعلی سطحی اجلاس میں بتایا گیا کہ پاکستان ایسے تمام امکانات کو ختم کرنے پر کا م کر رہا ہے جس سے ہندوستان کے ساتھ جنگ کی نوبت آ سکے۔ تاہم اس حوالے سے ایک معاملہ ایسا ہے جسے ختم کرنا بہت ہی مشکل ہے۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ ہندوستان پاکستان آنے والے دریائوں کا پانی روکنے کے منصوبے پر کا م کر رہا ہے ۔اس صورتحال میں اگر ہندوستان ضرورت کے وقت پانی روک دیتا ہے تو پاکستان کے پاس جنگ کے علاوہ اور کوئی آپشن باقی نہیں رہے گا۔
ہندوستانی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی حالیہ تشویشناک اور خطرناک صورتحال میںپاکستان انتظامیہ کی طرف سے دفاعی،بلکہ معذرت خواہانہ پالیسی سے اس حقیقت کا اعادہ ہو اہے کہ 1960 میں ہندوستان کے ساتھ نقصاندہ شرائط پہ مبنی سندھ طاس معاہدہ کرتے ہوئے نا صرف پاکستان کی زرعی طاقت کا توڑ ہندوستان کے ہاتھ میں دے دیا گیا بلکہ ورلڈ بنک کی میزبانی میں طے پائے اس سمجھوتے کے ذریعے پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو کشمیر کے آبی وسائل کے معاملے سے علیحدہ کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر ہندوستان کے قبضے کو تسلیم کر لیا تھا۔
سالہا سال پہلے معروف صحافی طلعت حسین ایک گروپ کے ساتھ جموں اور سرینگر کے دورے کے بعد اسلام آباد میں اپنے تاثرات بیان کر رہے تھے۔طلعت حسین نے سرینگر میں میسر ایک رات کے کئی گھنٹے پرانے شہر میں مختلف کشمیری گھروں میں بات چیت میں گزارے۔اس تقریب میں طلعت حسین سے سوالات بھی کئے گئے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والی کسی ’ این جی او‘ کی ایک خاتون نے کہا کہ پنجاب اور سرحد( اس وقت کے پی کے کا نام سرحد تھا) میں کشمیر کے موضوع پر دلچسپی ہو سکتی ہے لیکن سندھ میں نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ کا مسئلہ پانی ہے۔اپنے کمنٹ اور سوال میں عرض کیا کہ سندھ خود کو کشمیر کے مسئلے سے لاتعلق سمجھ رہا ہے اور پانی کو ہی اپنا مسئلہ سمجھتا ہے، اگر انڈیا مقبوضہ کشمیر میں دریائوں پر اپنا کنٹرول موثر کرتا ہے تو اس سے پاکستان آنے والے دریائوں کے پانی میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے اور اس صورت سندھ خود کو یہ کہتے ہوئے کشمیر کو اپنا مسئلہ بھی قرار دے سکتا ہے کہ کشمیر میں پانی روکے جانے سے، سب سے زیادہ سندھ ہی متاثر ہو گا۔
اب سوال یہ ہے کہ امریکہ کی طرف سے افغانستان و دیگر حوالوں سے دی گئی ذمہ داریوں، یمن جنگ، ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی جیسے بڑے بڑے اہداف میں مشغول رہتے ہوئے پاکستان انتظامیہ سے ہندوستان کی طرف سے دریائوں کاپانی روکے جانے کے اقدامات کا مذمتی بیانات اورسفارتی کوششوں کے علاوہ کس ردعمل کی توقع کی جا سکتی ہے؟
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن