ہمارے ایک گزشتہ کالم ’’سیاست کے بدلتے تقاضے‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کراچی سے ڈاکٹر احسن منیر نے لکھا ہے کہ ماضی میں اسمبلی میں لیڈر شپ طلباء یونین کے ذریعے آیا کرتی تھی۔1984ء میں جس کا گلا ضیاء الحق نے گھونٹ دیا، اور کا نتیجہ یہ نکلا کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے محض رٹو طوطے نکل رہے ہیں۔ ہزار میں 990 نمبر لینے والے، جنہیں پاکستان کی مبادیات کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ انہیں سیاست کی کچھ خبر ہے نہ معشیت کی، اور عالمی معاملات کا علم تو صفر سے بھی نیچے۔ جن کا مطمۂ نظر محض یہ کہ کہیں چھوٹی موٹی نوکری مل جائے، اور زندگی کا پہیہ چل نکلے۔
طلباء یونینز پر پابندی سے پہلے پاکستان کے مسائل کے حوالے سے ان کی باقاعدہ تربیت ہوتی تھی۔ مختلف النوع تقریبات کا سلسلہ اور تقاریر و سیمینارز اور پھر یونین انتخابات طلباء میں سیاسی شعور پیدا کرنے اور ان کی سیاسی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ بیتی صدی کی 60 ویں اور 70 ویں دہائی میں جن طلباء نے ملکی سیاست میں نام کمایا، وہ طلباء یونینز ہی کی پیداوار تھے۔ ان میں جاوید ہاشمی، شیخ رشید، معراج محمد خان، فتح یاب علی خان، امان اللہ، راجہ انور، لیاقت بلوچ، محمد علی درانی، حسین حقانی، فرید پراچہ، جہانگیر بدر، قاسم ضیائ، الطاف حسین، ڈاکٹر فاروق ستار، عظیم طارق اور عمران فاروق وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ بعد میں جنہوں نے انتخابی سیاست میں حصہ لیا، اکثریت منصب وزارت تک پہنچی، اور ملکی سیاست میں نام چھوڑا۔
1984ء میں طلباء یونین پر پابندی عائد کرتے ہوئے کسی نے نہ سوچا کہ مستقبل کی لیڈر شپ کی نرسری کو یوں ویران کرنے سے ملک میں قیادت کا بحران پیدا ہوگا اور خاندانی سیاست فروغ پائے گی۔ حکمرانوں کی اولادیں قدیم بادشاہوں کی طرح یکے بعد دیگر تخت نشین ہونا شروع ہوجائیں گی۔ ان کا کسی سے مقابلہ ہوگا اور نہ کوئی چیلنج درپیش۔ ایسے میں اگر ذوالفقار علی بھٹو کی وراثت ٹیڑھے میڑھے راستوں سے ہوتی ہوئی ان کے نواسے بلاول بھٹو زرداری کو منتقل ہوچکی، تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ یہ الگ بات کہ بھٹو خانوادہ کی وراثت کا اہل بنانے کے لئے بلاول صاحب کو بھٹو پلس زرداری کا ایک اڈھب سا لاحقہ اپنے نام کے ساتھ جوڑنا پڑا۔ اِدھر لاہور میں میاں خاندان کی سیاسی وراثت کے لئے دو نام سامنے ہیں، مریم نواز اور حمزہ شہباز۔ دیکھئے کارکنانِ قضا و قدر مستقبل کا منظر نامہ کس طور تحریر کرتے ہیں۔ فی الحال تو مایوسی ہے۔
طلباء یونین کی صورت میں سیاسی نرسریاں بند ہوئیں، تو اس خلاء کو پُر کرنے کے لئے مذہبی جماعتیں آگے آگئیں۔ اور اپنے انداز کی سیاست سے قومی منظر نامہ پر اثرات چھوڑے، بعض ایسی جماعتوں کا نام شدت پسندی اور دہشت گردی کے ساتھ بھی جوڑا گیا۔ طلباء یونین کی بندش کا خمیازہ قوم کو لسانی، علاقائی اور نسلی تنظیموں کے فروغ اور قومی منظر نامہ پر اس کے منفی اثرات کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ نسلی، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم اس وقت بھی وطن عزیز کی نظریاتی اساس کو چیلنج کررہی ہے۔ اس مسئلہ کو ہلکا نہیں لینا چاہئے۔
مختلف قومیتوں، علاقوں اور لسانی گروپوں کا بغرض تعلیم کسی بھی جامعہ میں اکٹھا ہونا عین فطری ہے، اور اس اجتماع کو پھولوں کے گلدستے کی مانند ہونا چاہئے۔ مگر طلباء یونین کا پلیٹ فارم میسر نہ ہونے کی وجہ سے مختلف قسم کی عصبتیں بروئے کار آتی ہیںِ، اور طلباء کو متحارب گروپوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کرتی ہیں۔ اس حوالے سے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی مثال دی جاسکتی ہے۔ جہاں نوجوان وطنِ عزیز کے کونے کونے سے حصول علم کی غرض سے کھنچے چلے آتے ہیں۔ مگر نادیدہ قوتوں کے زیر اثر ناپسندیدہ ہاتھوں میں کھیلتے ہیں، اور یوں ادارے کی حرمت پر ہی حرف نہیں آتا، تعلیم اور یکجہتی کی فضا بھی مکدر ہوجاتی ہے۔
میں اپنے گذشتہ مضمون میں بھی عرض کرچکا ہوںِ، کہ زمانے کی تیزی سے بدلتی اقدار اور ضروریات نے سیاست کے شعبے میں بھی انقلاب برپا کردیا ہے۔ یہ بیتی صدی کی 7 ویں دہائی نہیں ، ہم 2020 ء میں سانس لے رہے ہیں۔ یہ ہائی ٹیک اور مہارتوں کا زمانہ ہے۔ اب ناخواندہ یا نیم خواندہ سیاستدانوں سے کام نہیں چلے گا۔ وزارتی، مشاورتی اور دیگر حکومتی مناصب سنبھالنے کے لئے ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے، جو علمی رفعتوں کے ساتھ ساتھ تیزی سے بدلتے عالمی منظر نامے میں بھی فٹ ہوسکیں۔ مطلوبہ سٹف ہمیں طلباء یونینز سے ہی مل سکتا ہے، جن پر سے ہمیں اپنی پہلی فرصت میں پابندی ہٹانا ہوگی۔
لیڈر شپ بائی چانس نہیں ہوتی، یہ ’’مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں۔ تب خاک کے سینے سے انسان نکلتے ہیں‘‘ والا عمل ہے۔ قوم لیڈر شپ کے حوالے سے بانجھ ہوچکی، سبھی قابلِ ذکر نام 65 برس سے اوپر، بعض 70 بھی کراس کرچکے۔ یہ گِھسی ہوئی مشینیں اور کتنا چلیں گی؟ سرکار 60 پر یونہی اٹھا کر باہر نہیں پھینک دیتی۔ ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں واقعی خرچ ہوچکی ہوتی ہیں۔ کیبنٹ میٹنگ میں بیٹھے بعض چہروں پر تو واقعی رحم آتا ہے، کہ کس قدر اذیت کا شکار ہیں۔ ایسے میں خان صاحب کی خدمت میں درخواست ہے ، کہ چڑھتے دریاؤں کو نہ روکیں۔ بے پناہ ذہین یوتھ کو ملک کے سیاسی عمل کا حصہ بنانے کی راہ میں حائل پابندیاں اٹھا لیجئے۔
٭…٭…٭