تحریر : فرحانہ تبسم صدیق
ترتیب : صوفیہ یزدانی
soofiayazdani.khi@gmail.com
نرسنگ اسٹاف کسی اسپتال کو چلانے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ایک اچھی نرس دس مریضوں کو بہت آرام سے سنبھال سکتی ہے۔نرس ہی مریض کی تمام پیچیدگیوں اورمریض کی بگڑتی ہوئی حالت بھی دیکھتی ہے۔اس کی ضرورتوں پر بھی نظررکھتی ہے۔وہ مریض کے علاج کے بارے میں بھی فکر مند ہوتی ہے۔ایک نرس مریض کے بارے میںڈاکٹر کی زیادہ بہتر رہنمائی کر سکتی ہے۔کسی اسپتال کے وارڈ میں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہیں رہتے۔وہ صرف چند منٹ کے لئے س مریضوں کو دیکھنے آتے ہیں۔ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا ۔اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ڈاکٹروں کی بھی بہت کمی ہے ‘نرس 24گھنٹے مریض کے ساتھ ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں نرسنگ ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔کیوں کہ کوئی بھی اسپتال نرس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ہر اسپتال کو تعلیم یافتہ نرسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 80 تا90ہزار رجسٹرڈ نرسیں ہیں۔یہ تعداد پاکستان میں بہت کم ہے۔ہمارے ہاں ایک نرس پچاس پچاس مریضوں کو سنبھال رہی ہے۔اس وقت اٹھارہ لاکھ نرسوں کی ضرورت ہے۔ہماری کافی ساری نرسنگ فورس بیرون ملک بھی چلی جاتی ہے۔نرسوں کو کویت جانے کے لئے این او سی دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں سینکڑوں نرسیں وہاں جا رہی ہیں۔ہمارے ہاںماسٹرز لیول کی نرسوں کی بہت کمی ہے۔بہت کم ادارے ماسٹر آف نرسنگ کی پیش کش کرتے ہیں۔ماسٹر آف نرسنگ کا ڈگری پروگرام پڑھانے کے لئے کم از کم دو تین فیکلٹی کی ضرورت ہے۔ہمارے پاس اس کی اورفیکلٹی گروتھ اینڈ ڈویلپمنٹ کی بہت کمی ہے۔ فیکلٹی کی نرسنگ کی ایجو کیشن اینڈ ٹریننگ بھی ویسی نہیں ہے جیسی ہونی چاہیئے۔اس سے نرسنگ کا معیار بہت متاثر ہوتا ہے۔بعض اسپتال اور ادارے نرسنگ ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ کو بڑھانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔نرسنگ کے معیار کو نرسنگ کی تعلیم کے معیار سے آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ان کی ٹریننگ اور بنیاد بہت مضبوط ہونی چاہیئے۔میں نے 1984ء میں آغا خان اسکول آف نرسنگ کراچی سے ٹریننگ لی ۔ہماری بنیاد بہت مضبوط تھی۔جس دن پاکستان آرمی میں ملازمت کامیرا پہلا دن تھا اس دن میں نے صرف ایک مریض کو آکسیجن لگائی تھی کہ ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ آغا خان اسکول آف نرسنگ سے ٹرینڈ ہیں۔اس ڈاکٹر کو میرا مریض کے ساتھ رویہ اور کام کا طریقہ بہت مختلف لگا کہ اس نے سب سے پہلے میری ٹریننگ کا پوچھا۔
صدر پاکستان عارف علوی نے 2020ء کو نرسنگ کا سال قرار دیا ہے۔ لیکن پاکستان کے کسی صوبے میں بھی نرسیں حکومتی اقدامات اور پالیسیوں ‘ کیڈر اور اپنی تنخواہوں سے مطمئن نہیں ہیں۔اسی لئے آئے روز نرسیں احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔کچھ عرصہ قبل کراچی پریس کلب کے سامنے بھی احتجاج کیا گیا تھا۔ہر تھوڑے دن بعد سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والی نرسوں کا کوئی نہ کوئی گروپ احتجاج کرتا نظر آتاہے۔ملازمت ختم ہونے کے خوف سے نجی اسپتالوں اور کلینکس میں کام کرنے والی نرسیں احتجاج نہیں کر سکتیں۔انہیں جہاں بہتر تنخواہ اور مراعات ملتی ہیں وہ ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ چلی جاتی ہیں۔
نرسنگ کو فروغ دینے کے لئے حکومت کی جانب سے سندھ‘بلوچستان‘ کے پی کے اور پنجاب کے جن علاقوں میں انٹرمیڈیٹ سائنس کالج نہیں ہیں وہاں یہ کالج قائم کئے جائیں تا کہ ان علاقوں میں بھی لڑکیاں نرسنگ کے شعبے میں آ سکیں۔اس وقت نرسنگ کے ڈگری پروگرام میں داخلے کے لیئے امید وار کا انٹرمیڈیٹ سائنس پری میڈیکل ہونا ضروری ہے۔پاکستان کے بہت سے علاقوں میں لڑکیاں میٹرک کے بعد پڑھنا چاہتی ہیں لیکن ان کے علاقوں میں کالج ہی نہیں ہیں۔والدین انہیں دور کے کالجوں میں بھیجنا نہیں چاہتے۔یہاں کی جو لڑکیاں نرس بننا چاہتی ہیں اور بہت اچھی نرس بن سکتی ہیں ان کا یہ خواب کیسے پورا ہو سکے گا۔
نرسنگ میں داخلے کے لئے انٹر میڈیٹ سائنس ضروری قرار دیا گیا ہے۔ نرسنگ کوسائنس آف نرسنگ اور آرٹس آف نرسنگ میں تقسیم کیا جا تاہے۔آرٹس پڑھی ہوئی لڑکی بھی تو ایک اچھی نرس بن سکتی ہے۔ان کے لئے بھی کوئی راستہ نکالنا چاہیئے انہیں ہائرسیکنڈری اسکول کا سائنس کا سرٹیفیکیٹ ملنا چاہیئے۔ ہمارے ملک میںسرٹیفائیڈ اسسٹنٹ نرس کا بھی ڈپلومہ دیاجا رہااور اس ڈپلومہ کورس میں میٹرک سائنس یا آرٹس پاس لڑکے اور لڑکیاں داخلہ لے سکتی ہیں۔کورس مکمل کرنے کے بعدیہ سرٹیفائیڈ اسسٹنٹ نرس بن جاتے ہیں لیکن میٹرک پاس ہونے کی وجہ سے یہ گریجوئیشن نہیں کر سکتے۔اسے ایف ایس سی کے لیول کا لازمی درجہ دینا چاہیئے۔ضیاالدین بورڈ آف ایجوکیشن اس پر کام کر رہا ہے کہCNAکرنے والے میٹرک پاس لڑکے اور لڑکیوں کوانٹر پری نرسنگ ایف ایس سی نرسنگ کا بھی سرٹیفیکیٹ دیا جائے تا کہ اگر وہ ڈگری یا ماسٹرز کرنا چاہیں تو کر سکیں۔ اب میٹرک پاس کرنے والے طلبا و طالبات کے لئے نرسنگ میں آنے کے لئے کوئی اور ذریعہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ اسسٹنٹ نرس بن جائیں۔ضیا الدین بورڈ آف ایجوکیشن حکومت سندھ سے یہ اجازت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔اس سلسلے میں نصاب بھی تشکیل دیا جا رہا ہے اور ایک کتاب بھی لکھی جا رہی ہے کہ میٹرک پاس بچوں کو سرٹیفائیڈ اسسٹنٹ نرسنگ (CNA)پروگرام میں داخلہ دیا جائے۔یہ دو سالہ ڈپلومہ کورس پاکستان کونسل آف نرسنگ سے منظور شدہ ہے۔اس کے ساتھ انہیں ایف ایس سی نرسنگ کے مضامین بھی پڑھائے جائیں۔سی این اے کے اس دو سالہ پروگرام کے بعد انہیں ایف ایس سی نرسنگ کا سرٹیفیکیٹ بھی مل جائے تا کہ اگر یہ لڑکے اور لڑکیا ں اگرآگے پڑھنا چاہتے ہیں یا ڈگری لینا چاہتے ہیں تو وہ اسکول آف نرسنگ میں داخلہ لے لیں یا سرٹیفائیڈ اسسٹنٹ نرسنگ کی ملازمت کرنا چاہتے ہیں تو اسپتال میں اسسٹنٹ نرس کے طور پر کام کرتے رہیں۔ فی الحال یہ پروگرام سندھ کی سطح پر شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔یہاں سے منظور ہونے کے بعد باقی صوبے یقیناً اس پروگرام سے رہنمائی حاصل کرسکیں گے۔یہ مستقبل میں ملک کے لئے بہت بڑا ویثرن اور مثالی پروگرام اور ہمارے ملک کے لئے بہت بہتر ثابت ہو گا اور میٹرک پاس بچوں کے لیئے نرسنگ میں آنے کا راستہ کھل جائے گا۔یہ کوالیفائیڈ اسسٹنٹ نرسیں ہونگی۔اس سے انہیں اور نرسنگ کو بھی فائدہ ہو گا اور نرسوں کی کمی بھی پوری ہو جائے گی۔
گزشتہ دنوں بعض اسپتالوں میں بچوں کی اموات کے کچھ واقعات ہوئے ۔کئی مقامات پر اسپتال بند کرنے پڑے۔کئی جگہ سندھ ہیلتھ کئیر کمیشن نے ان پر پابندی لگا دی۔ان پر اس وقت کئی مقدمات زیر سماعت ہیں۔ان واقعات کی وجہ غیر تعلیم و تربیت یافتہ نرسیں ہوتی ہیں۔تعلیم اور تربیت یافتہ نرسوں سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ کوالٹی آف کئیر بہت بہتر ہو جائے گی اور نرسوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا۔پری نرسنگ پڑھنے سے بچوں میں نرسنگ کی بنیاد پڑے گی اور ہو سکتا ہے کہ ان میں نرسنگ کا شوق بھی پروان چڑھے گا ۔اس وقت لڑکیوں کے مقابلے میںکے پی کے کے لڑکے نرسنگ میں آنے کے زیادہ خواہش مند نظر آتے ہیں لیکن اسپتالوں میں ان کی تعداد ملازمت کرتے ہوئے نظر نہیں آتی ۔دیگر صوبوں میں بھی لڑکے اور لڑکیاں نرسنگ میں دلچسپی لیتے ہیں لیکن ان صوبوں کے اسکول آف نرسنگ میں سیٹوں کی تعداد بہت کم ہے اور ہر جگہ میرٹ لسٹ بہت ہائی جاتی ہے ۔کسی اسکول آف نرسنگ کے پاس 50‘کسی کے پاس 100اور کسی کے پاس صرف 150 سیٹیں ہیںجب کہ داخلے کے لئے 500تا600 درخواستیں وصول ہوتی ہیں۔
پری نرسنگ ایجو کیشن باہر کے ممالک میں بھی پڑھائی جاتی ہے۔پری نرسنگ کرنے والے بچوں کو یہ فائدہ ہو گا کہ انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے ملازمت کے مواقع بھی ملیں گے اور وہ آف ٹائم کے بعد اسپتالوں میں پارٹ ٹائم ملازمت بھی کر سکیں گے اس وقت حکومت کی جانب سے نرسوں کی تنخواہیں بڑھانے کی کوشش تو بہت کی جا رہی ہے۔اب انہیں بی پی ایس16اور17میں ملازمت دی جا رہی ہے لیکن بہت سی نرسیں ایسی ہیں جن کی 16اور17گریڈکے بعد 18اور 19 گریڈ میں ترقی نہیں ہوئی ہے۔بہت سی نرسیں بیس بیس سال کے بعد بھی اسی گریڈ16‘17میں ہی ریٹائر ہوئی ہیں۔ان گریڈز میں بلا شبہ نرسوں کی تنخواہیں پہلے سے بہتر ہیں اورانہیں مراعات بھی مل رہی ہیں لیکن نرسنگ کو آگے بڑھانے کے لئے ہمیں نرسنگ کیڈر کی گروتھ اور اسے پیشہ ورانہ بنانے کے لیئے بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔خصوصاً فیکلٹی گروتھ اینڈ ڈویلپمنٹ پروگرام کو بھی آگے بڑھانا چاہیئے۔ہمیں فیکلٹی گروتھ اینڈ ڈویلپمنٹ کہیں نظر نہیں آتی۔فیکلٹیزپرائیوٹ ملازمت بھی کر رہے ہیں ‘پڑھ بھی رہے ہیں اور پڑھا بھی رہے ہیں جس سے کام کا معیار‘ ایجوکیشن‘ملازمت اور ٹریننگ میںہر صورت میں متاثر ہوتی ہے۔
صحت عامہ کے مسائل حل کرنے کے لئے سندھ ہیلتھ کئیر کمیشن تشکیل دیاگیا ہے۔جس کے تحت صحت کے مسائل سنے اور حل کئے جاتے ہیں۔اسپتالوں اور کلینکس کی رجسٹریشن اور لائسنسنگ لازمی قرار دے کر رجسٹریشن کی جاتی ہے اور لائسنس جاری کئے جاتے ہیں‘اسپتالوں کے وزٹ کئے جاتے ہیں۔رجسٹریشن نہ کرنے پر انہیں سر بمہر بھی کیا جا سکتا ہے اور نوٹس بھی دیئے جاتے ہیں۔ سندھ ہیلتھ کئیر کمیشن کے تحت ایک کمپلینٹ ڈیپارٹمنٹ بھی بنایا گیا ہے۔جس میں اسپتال یا اس کے عملے‘مریض یا اس کے گھر والوں کے خلاف شکایت درج کی جا سکتی ہے۔کمپلینٹ ڈیپارٹمنٹ اس کا نوٹس لیتا ہے‘ان کی باقاعدہ سماعت ہوتی ہے۔پلنٹی دینی ہو تو باقاعدہ پلنٹی دی جاتی ہے‘ادارے کو بند بھی کیا جا سکتا ہے‘ہدایات دی جاتی ہیں اور تنبیہ کی جاتی ہے۔
۔Compensationدلوانا کمیشن کا کام نہیں ہے ۔سندھ ہیلتھ کئیر کمیشن کے بورڈ میں بڑے اسپتالوں کے باقاعدہ تعلیم یافتہ کنسلٹنٹس موجودہیں۔یہ کمیشن ہر ایک کے لئے کھلا ہوا ہے۔اس کا اپنا ایک ضابطۂ اخلاق ہے اور نوے دن کے اندر اندر کیس کو مکمل کیا جاتا ہے۔لوگوں کو اس کمیشن سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔
نرسنگ کے شعبے کا ایک اہم کام ہوم کئیر نرسنگ ہے جس میں مریضوں کو گھروں میںنرسنگ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔یہ وہ مریض ہوتے ہیں جنہیں اسپتال میں داخل کرنے کی بجائے ان کی دیکھ بھال گھر میں بھی کی جا سکتی ہے یا ایسے ضعیف یا فالج زدہ یا طویل امراض میں مبتلا لوگ جنہیں کئیر کی ضرورت ہے۔گھر میں کیئر کرنے سے اسپتال کی بہ نسبت خرچہ بھی کم آتا ہے ۔پاکستان میں اسپتال بہت کم ہیں ۔سرکاری اسپتالوں میں تو مریض زمین پر پڑے ہوتے ہیں۔نجی اسپتالوں کا مہنگا علاج ہر ایک برداشت نہیں کر سکتا۔
میں نے برطانیہ اور سعودی عرب میں اس فیلڈ میں کام کیا ہے لیکن ان کے مقابلے میں ہماری ہوم کئیر نرسنگ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔برطانیہ میں یہ کام حکومتی اور نجی سطح پر اور سعودی عرب میں پرائیوٹ ہے ۔برطانیہ میں ہوم کیئر نرسنگ کمپنی کو ایک زون کی ذمہ داری دے دی جاتی ہے۔حکومت انہیں کہتی ہے کہ آپ مریض کے پاس اپنا ٹرینڈ اسٹاف بھیج کر اس کی کیئر کریں گے۔یہ بہت ذمہ داری سے اپنے فرائض ادا کرتے ہیں۔حکومت ان پر چیک اینڈ بیلنس رکھتی ہے۔پاکستان خصوصاً سندھ میں ہوم کیئر نرسنگ کی صورتحال بالکل مختلف ہے ۔یہاں یہ اہم کام غیر تعلیم و غیر تربیت یافتہ لوگ کر رہے ہیں۔ان کے لیئے کوئی ریگولیٹری باڈی نہیں ‘کوئی قواعد و ضوابط نہیں۔اسی لیئے غلط استعمال بھی ہو رہا ہے ۔بعض ایجنسی والے غلط رویہ اختیار کرتے ہیںیہ سروس بہت مہنگی بھی ہے ۔ انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔یہ نان کوالیفائیڈ اسٹاف کے لئے کوالیفائیڈ اسٹاف کے پیسے وصول کر رہے ہیں۔یہ ایجنسیاں اسپتالوں کی آیا‘کلینر وغیرہ کو کام سکھا کر مریضوں کی جانوں سے کھیل رہی ہیں۔12گھنٹے کی ایک شفٹ کے 1800روپے وصول کئے جا رہے ہیں۔جس اسٹاف کو اسپتالوں میں بارہ چودہ ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے وہ گھروں سے چالیس پینتالیس ہزار روپے کما رہے ہیں۔اس کے باوجود کام بھی صحیح نہیں کر رہے اور نہ ہی مریض کے گھر والوں کے ساتھ ان کا رویہ درست ہوتا ہے۔گھر والوں کوانہیں کھانا کھلانے کے لیئے بھی کہا جاتا ہے ۔یہ دن میں موبائل فون کا استعمال کرتے اور رات کوزیادہ وقت سو تے ہیں۔ان کا یہ کام کاروبار بن چکا ہے جس کی کوئی رجسٹریشن بھی نہیں۔انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں اس لیئے وہ اپنی من مانی سے یہ ادارے چلا رہے ہیں۔گھر والے مجبور ہوتے ہیں اور ان کی شکایت نہیں کرتے ۔انہیں سندھ ہیلتھ کئیر کمیشن سے شکایت ضرور کرنی چاہیئے۔ حکومت ‘سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کو اس پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔