ماہرین کے مطابق یوں تو مقبوضہ کشمیر کے عوام عرصہ دراز سے انسانی حقوق کی بد ترین پامالیاں سہہ رہے ہیں مگر خصوصاً 1989سے مقبوضہ وادی میں کیسے کیسے انسانی المیے جنم لیتے آئے ہیں ان سے سب بخوبی آگاہ ہیں۔اسی پس منظر میں پوری کشمیری قوم 27 اکتوبر کو یومِ سیاہ کے روپ میں منا رہی ہے کیونکہ اسی روز 1947 کوتمام اخلاقی بین الاقوامی ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انڈین آرمی نے ریاست جموں کشمیر پر ناجائز قبضہ کر لیا اور بھارت کا یہ غاصبانہ تسلط 74 برس گزر جانے کے بعد بھی ہنوز جاری ہے۔ اگرچہ اس نا جا ئز قبضے کے بعد کئی برسوں تک بھارت یہ وعدہ کرتا رہا کہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کی غرض سے حق خودرادیت کا موقع فراہم کیا جائے گا مگر بعد ازاں بھارت ہمیشہ کی مانند بتدریج اپنے اس وعدے سے بھی مکر گیا ۔ اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ دہلی کی ریاستی دہشتگردی عروج پر ہے اور اس کے جنگی جنون میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ کچھ ماہ قبل بھارت نے اسرائیل سے ہتھیاروں کے تاریخ کے سب سے بڑے معاہدے کئے جبکہ بھارتی معیشت کا عالم یہ ہے کہ خود بھارت کے سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں ہندوستانی معیشت اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ چند روز قبل ہندی اخبار ’’جن ستا‘‘ نے سری نگر کے پولیس ہیڈ کوارٹر میں لاشوں کے پوسٹ مارٹم شعبے کے سربراہ محمد مقبول شیخ کے انٹرویو کو دوبارہ شائع کیا۔ ممکن ہے بعض افراد کو اس فرد کے اس انٹرویو میں بظاہر کوئی قابل توجہ بات نظر نہ آئے مگر دنیا بھر کے حساس انسانوں کے دلو ں کو یہ یقینا ہلا کر رکھ دے .واضح رہے کہ بھارتی دانشور ’’وشنو ناگر‘‘ کا کیا گیا یہ انٹرویو جنوری 2001 میں بعنوان ’’مقبول شیخ جیسے انسان ‘‘ پہلی مرتبہ شائع ہوا تھا ۔ مذکورہ انٹرویو میں مقبول شیخ نے انکشاف کیا تھا کہ 1989 میں تحریک آزادی کے آغاز کے بعد سے اس کے شعبے نے 14 ہزار سے زائد لاشیں وصول کیں اور ان مردہ اجسام کا پوسٹ مارٹم اس کی زیر نگرانی ہوا۔ اس نے کہا کہ روزمرہ کے اس معمول نے اسے بڑی حد تک ایک بے بس انسانی جسم میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے، اور اس کے اندر کے لطیف انسانی احساسات یکسر ختم ہو چکے ہیں۔ اسے معمولی سی نیند لینے کے لئے بھی نیند کی ادویات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ وہ یہ ملازمت چھوڑنے کا خواہش مند ہے مگر اپنے بچوں کی پرورش کے لئے کوئی دوسرا متبادل ذریعہ نہ ہونے کی بنا پر مجبوراً یہ کام کئے جا رہا ہے ۔ اس کے بقول لہو رستی لاشیں دیکھ دیکھ کر وہ تنگ آ چکا ہے لہذادعاگو ہے کہ دنیا کے اس بدقسمت خطے میں بھی پائیدار بنیادوں پر امن قائم ہو۔ اس ضمن میں مقبول شیخ نے بھارت سرکار اور پوری انسانی برادری سے انسانیت کے نام پر اپیل کی تھی کہ خدارا اس خونی کھیل کو ختم کر کے مقبوضہ ریاست کے تقریباً ایک کروڑ عوام کو بھی نارمل زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ سری نگر میں لاشوں کے پوسٹ مارٹم کے واحد ماہر محمد مقبول نے کہا تھا کہ 1989 کے بعد سے اس نے 14 ہزار سے زائد لاشیں وصول کیں۔ اس نے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ میں اب کوئی کام بھی خوشی سے نہیں کر سکتا کیونکہ دوران پوسٹ مارٹم مردہ جسم کو بار بار اندر سے کھولنا پڑتا ہے تا کہ موت کی وجوہات کا تعین کیا جائے سکے اور گولیوں یا دھماکوں میں کٹے ہوئے اعضا کو واپس جوڑنا ہوتا ہے،تحریک آزادی کشمیر کے آغاز سے قبل خودکشی یا قتل کے اکا دکا واقعات میں مرنے والوں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنا پڑتا تھا مگر پچھلے برسوں میں تو روزانہ درجنوں انسانی لاشیں یہاں (سرینگر) لائی جاتی ہیں اور اکثر اوقات پورے کے پورے ٹرک بھر کے لاشیں سری نگر کے پولیس ہسپتال میں آتی ہیں اور مرنے والوں کی اکثریت کم سن کشمیری بچوں اور نوجوانوں کی ہوتی ہیں اور اکثر اوقات مرنے والے ایک ہی خاندان کے ہوتے ہیں‘‘۔ مبصرین کے مطابق یہ کام کرنا کس قدر تکلیف دہ ہے اس کا اندازہ ہر ذی شعور کر سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مقبول شیخ کے مطابق ’’ میں اپنی زندگی سے اتنا بیزار ہو چکا ہوں کہ بعض اوقات خون سے بھرے ہاتھوں کے ساتھ ہی میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ کھانے میں شریک ہو جاتا ہوں اور جب میرے بچے مجھے یاد دلاتے ہیں کہ میں نے کھانے سے پہلے نہ ہاتھ دھوئے ہیں اور نہ خون آلود کپڑے تبدیل کئے ہیں تو میں ایسا کرتا ہوں۔ اگر عالمی برادری اس قتل عام اور بربریت کو ختم کرنے میں اپنا انسانی کردار ادا کرے تو شاید سب سے زیادہ مخلص اور مطمئن شخص میں ہوں گا کیونکہ پھر نہ تو مجھے آئے روز بے گناہ انسانی جسموں کی چیر پھاڑ کرنی پڑے گی اور نہ ہی معصوم افراد کی کٹی پھٹی لاشوں کے ٹکڑے جوڑ جوڑ کر کے اکٹھے کرنا پڑیں گے۔ ‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے بعض افراد کو اس فرد کے اس انٹرویو میں بظاہر کوئی قابل توجہ بات نظر نہ آئے مگر دنیا بھر کے حساس انسانوں کے دلو ں کو یہ یقینا ہلا کر رکھ دے گا۔ ویسے بھی چند روز قبل اقوام متحدہ کے قیام کی 76ویں سالگرہ منائی گئی، مگر یہ اپنے قیام جتنا ہی پرانا تنازعہ حل کرنے میں یکسر ناکام ثابت ہوا ہے۔ا
یسے میں شائد یہ توقع رکھنی بے جانہ ہو گی کہ بھارت سرکار ریاستی دہشتگردی کا سلسلہ ختم کر کے کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق اس دیرینہ مسئلے کا پرامن حل تلاش کرنے میں زیادہ فعال کردار ادا کرے کیونکہ یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان اس ضمن میں اپنے حصے کا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ عالمی برادری اور دہلی سرکار اس طرف زیادہ حقیقت پسندی کی راہ اپنائے تا کہ اس قسم کے انسانی المیے ہمیشہ کے لئے ختم ہو سکیں اور جنوبی ایشیاء کے عوام ترقی و خوشحالی کے خواب کو عملی جامہ پہنچتے دیکھ سکیں۔