مشہور فرانسیسی مفکر رُوسو نے کہا تھا ’’انسان آزاد پیدا ہوا تھا مگر ہر طرف زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔‘‘ یہ زنجیریں جبر و استبداد کی نہیں، یہ زنجیریں ظلم اور زیادتی کی ہیں۔ ناروا پابندیوں کی نہیں انسان ازل سے ہی صید زبونِ شہریاری رہا ہے۔ انسان کی انسان کو زیر کرنے، غلام بنانے کی حرص اور ہوس نے کبھی دم نہیں توڑا ۔ چشمِ تاریخ نے کھوپڑیوں کے مینار بنتے دیکھے ہیں۔ الغرض آدمی کا شیطان آدمی رہا ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کی بدقسمتی یہ تھی کہ ان کا پالا دو شیطانوں سے پڑا تھا۔ ایک وہ جو اپنی ایمپائر کے ڈوبتے ہوئے سورج کو بڑی حیرت اور حسرت سے تک رہا تھا اور دوسرا اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینے کے لیے سازشوں کے جال بُن رہا تھا۔ مسلم قوم کے زوال کے کئی اسباب تھے۔ جب سلاطین شمشیر و سناں چھوڑ کر طائوس و رباب کے رسیا ہو جائیں اور ’’ایں دفترِ بے معنی غرقِ مے ناب اولیٰ کا ورد کرنے لگیں تو پھر ذلت اور رسوائی اس قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔
دوسری جنگِ عظیم گو برطانیہ کی فتح پر منتج ہوئی مگر اس نے چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ نوآبادیاتی نظام زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ ہندوستان میں آزادی کی جو تحریک شروع ہوئی تھی وہ تیز تر ہوتی گئی۔ ابتدا میں ہندوئوں اور مسلمانوں نے مل کر آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کی۔
محمد علی جناح بھی کچھ عرصہ کانگرس کے رکن رہے۔ علامہ اقبال کی ابتدائی نظمیں وطنیت کے جذبے سے سرشار تھیںہندی ہیں‘ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا۔ نیا شوالہ میں برہمن کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں
پتھر کی مورتی میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ پر ذرہ دیوتا ہے
یہ کیفیت زیادہ دیر تک قائم نہ رہی۔ مسلمانوں نے ہندو ذہن پڑھ لیا وہ اکثریت کے بل بوتے پر مسلم قوم کو غلام بنانا چاہتا تھا۔ مسلمانوں نے مقدور بھر کوشش کی کہ متحدہ ہندوستان میں دونوں قومیں اپنے اپنے عقیدے اور مسلک کے مطابق باعزت زندگی گزاریں۔ اس کے لیے اسمبلیوں میں متناسب نمائندگی کا مطالبہ کیا۔ لالے نے اس جانبر مطالبہ کو ماننے سے یکسر انکار کر دیا۔
He wanted to subject them to the tyarrany of the majority.
مجبوراً مسلمانوں نے ایک الگ ملک کا مطالبہ کر دیا۔ اس پر بڑی لے دے ہوئی۔ پھبتیاں کسی گئیں۔ اسے مجذوب کی کہا گیا۔ علامہ اقبال نے جب کہا ؎ جذب حرم سے ہے فروغ انجمنِ حجاز کا۔
اس کا نظام اور ہے اس کا مقام اور ہے
تو پنڈت نرائین مُلا نے ہجّو لکھی…
ہندی ہونے پر ناز جسے کل تک تھا حجازی بن بیٹھا
اپنی محفل کا رند پرانا آج غازی بن بیٹھا
محمل میں چھپا ہے قیسَ حزیں
دیوانہ کوئی صحرا میں نہیں
پیغامِ جنوں جو لایا تھا اقبال وہ اب دنیا میں نہیں غیر تو غیر اپنے بھی کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کی وجہ سے مخالفت پر اُتر آئے۔ ان میں قابل ذکر نام مولانا آزاد اور حسین احمد مدنی کے ہیں مولانا مدنی نے تو وطنیت پر ایک ضخیم کتاب لکھی۔ جواباً علامہ کو کہنا پڑا
عجم ہنوز نہ دانند رموزِ دیں ورنہ
زدیوبند حسین احمد ایں چہ بو العجبیست
سرود برسر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر زمقام محمد عربیست
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بُو لہبسیت
مولانا عبدالکلام آزاد جیّد عالم دین تھے۔ ان کی علمیت پر تو دو آرا نہیں ہو سکتیں۔ نیت پر بھی شک نہیں کیا جا سکتا۔ مگر سیاسی سوچ غلط تھی۔ قائد اعظم انہیں Show boy of congress کہتے تھے۔ کانگرس کے صدر رہے مگر آزادی کے بعد ہندوئوں نے انہیں تعلیم کی وزارت پر ٹرخا دیا۔ اگر ان کی کتاب India wins Freedom کا مطالعہ کیا جائے تو بین السطور ایک یہی تاثر اُبھرتا ہے اور تاسف کے سائے انکی شخصیت پر صاف پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک طویل جدوجہد کے بعد 14 اگست 1947ء کو آزادی تو مل گئی مگر مسلمانوں کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ متعصب ہندوئوں نے سکھوں کی مدد سے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ ایک دریائے خون تھا جسے عبور کرنا پڑا۔ آزادی کی راہ میں ان گنت لوگ سربریدہ ہوئے۔ کئی جواں جسم خاک اور خون میں غلطاں ہوئے۔ عصمتیں لٹیں۔ بوڑھے بابوں کی کمریں کمان بنیں۔ لُٹ لُٹا کر بچے کھچے جو لوگ پاکستان پہنچے ان کے پاس داستانِ غم اور سجدہِ شکر کے سوا کچھ اثاثہ نہ تھا۔
آزادی کے بعد قائد اعظم پہلے گورنر جنرل بنے۔ وہ بیماری جسے انہوں نے مقدس راز کی طرح چھپا رکھا تھا، بالآخر جاں لیوا ثابت ہوئی اور وہ 1948ء میں رحلت فرما گئے۔ کچھ عرصہ بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھی راولپنڈی کے کمپنی باغ میں تقریر کے دوران شہید کر دیا گیا۔ اسکے ہرچہ بارا بار ہو گیا۔ میوزیکل چیرز کا کھیل شروع ہو گیا۔ (جاری)