اسحق ڈارکو اپنا منصب سنبھالے ابھی چند ہفتے گذرے ہیں، میرا یہ ان کے متعلق تیسرا کالم ہے۔ بلاشبہ وہ بائیس کروڑ عوام کی امیدوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ مہنگائی او ر دیگر معاشی مشکلات کی وجہ سے لوگ انہیں اپنا مسیحا سمجھتے ہیں ۔ اور انکے ایک ایک اقدام اور ان کے ہونٹوں سے ادا ہونیوالے ایک ایک لفظ پر غور کرتے ہیں ۔ گذشتہ دنوں وہ آئی کیپ کے زیراہتمام ایک کانفرنس میں شریک ہوئے ، جہاں انہوں نے تفصیلی خطاب کیا ۔ اس خطاب سے لوگوں کو امیدپیدا ہوچلی ہے کہ اب انکے دن پھرنے والے ہیں ۔ وزیرخزانہ نے گرے لسٹ سے نکلنے کی سب سے بڑی خوشخبری بھی سنائی ۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بہت سی حوصلہ افزاباتیں کیں۔ آپ بھی اس تقریر کی تفصیلات ملاحظہ فرمائیں تو جھوم جھوم اٹھیں گے ۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہاکہ امریکہ کو بھی بتادیا ہے کہ پاکستان روس سے سستا تیل خریدیگا۔ اگر بھارت روس سے تیل خرید سکتا ہے تو ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ لیں اور ہمیں اس سے روکنے کا کوئی جواز نہیں بنتا اور اگر بھارت سے کم قیمت پر ہمیں تیل ملا تو ضرور لیں گے ۔ اس حوالے سے امریکہ کے متعلقہ حلقوں کو آگاہ کردیا ہے ۔ اسحق ڈار صاحب نے زرمبادلہ ذخائر سے متعلق قوم کو یقین دلایا کہ کوئی پریشانی نہیں ہوگی ۔ میڈیا مارکیٹ کو اعتماد دے ، فکر کی کوئی بات نہیں ، د وٹوک کہہ رہا ہوں ، کوئی مشکل نہیں آئیگی، ڈالر کی اصل قدر 200روپے سے نیچے ہے، اضافہ مصنوعی ہے ۔ڈالر کو کنٹرول کرنا سٹیٹ بنک کی ذمے داری ہے اور وہ نبھارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں بہت جلد بینکرز سے بات کرونگاکہ مہنگائی نہ تو 6ماہ میں آتی ہے اور نہ ہی جاتی ہے ۔ ملک کی ترقی کیلئے ہمیں چارٹرآف اکانومی پر متفق ہونا ہوگا۔
وزیرخزانہ نے عمران خان کے اس بیان کو انتہائی غیرذمہ دارانہ قرار دیا کہ جب تک میں تھا، کمانڈ اینڈ کنٹرول کا نظام محفوظ تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تب بلایا جاتاہے ،جب معیشت کا بھٹہ بیٹھ جاتا ہے ۔ میری کوشش ہے کہ ملک کو سودی نظام سے نکال کر اسلامی معاشی نظام لائوں۔
معیشت کے حوالے سے فیصلے کرنے میں ، میں آزاد ہوں ،آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا، اس پر عمل کرینگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم ایل ون منصوبہ 6ارب ڈالر میں بننا تھا، جس کیلئے پاکستان کو قرض درکار تھا، اگر اسوقت بن جاتا تو 6ارب ڈالر میں بن جاتا۔لیکن اب اس منصوبے پر 12 سے 13ارب ڈالر خرچ ہونگے۔ ہم نے سیاست پر ریاست کو ترجیح دی ، اب بھی یہی کرنا ہوگا۔ ہم جہاں پہنچ چکے ہیں ،ہمیں اس نازک صورتحال سے نکلنے کیلئے بہت کام کرنا ہوگا۔ جب کوئی ملک کا سربراہ خودبیرون ملک جاکر کہے گا کہ ہمارا ملک خسارے میں ہے تو کون پاکستان آکر سرمایہ کاری کریگا، کوئی ملک دنیاکے سامنے جاکر اس طرح اپنے ملک کے امیج کو نقصان نہیں پہنچاتا ،مگر ہم نے قسم کھارکھی ہے کہ ملکی مفاد کو نقصان پہنچانا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب کے باعث 32 ارب40کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچااور ابتدائی اندازے کے مطابق سیلاب کے باعث 16.2 ارب ڈالر کی ضرورت ہے ۔ سینیٹر اسحق ڈار نے کہا کہ میں تمام بینکرزدوستوں کو ساتھ بٹھاکر بات کروں گا اور میڈیا کے دوستوں سے بھی گذارش کرتا ہوں کہ آپ لوگوں اور مارکیٹس کو اعتماد دلائیں کہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے ،نہ ہی کوئی مشکل پیش آئے گی۔ لوگوں پر مہنگائی کا بوجھ کم ہوگا کیونکہ یہ کوئی سوئچ نہیں کہ بند کرنے سے مہنگائی ختم ہوجائے گی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیصلہ کریں کہ پاکستان کو سودی نظام پر چلنا ہے یا اسلامی معاشی نظام پر ، میری کوشش ہوگی کہ پاکستان کو سودی نظام سے نکالوں ، کیونکہ ماضی میں بھی ہم نے کافی کاروبار اسلامی نظام پر کیا تھا، جس پر ڈپٹی گورنر کی نگرانی میں کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی ۔سودی نظام میں تمام اثاثے شامل ہوتے ہیں جن میں باہر کے سفارتخانے، بحری جہاز وغیرہ بھی ہیں ۔ جب ہم دیوالیہ ہونگے تو یہ ساری چیزیں جائیں گی ،مگر جب ہم اسلامی معاشی نظام کے تحت ہونگے تو ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ ہر ٹرانزیکشن کے نیچے ایک اثاثہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی ملک کی معاشی صورتحال ایسی ہو اور آپ اسوقت بھی یہ سوچیں کہ مجھے خودکشی کرنی ہے یا معیشت ٹھیک کرنی ہے یا آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے تو ’’یا‘‘ کرناقوم کیساتھ بالکل ٹھیک نہیں تھا۔ اسحق ڈار صاحب نے کہا کہ حکومت میں آنے کے بعد تین برس میں دنیا نے پاکستان کی معاشی ترقی کی تعریف کی اورمالی سال 2016-17 ء میں ہمارے پاس اسٹیٹ بنک میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 24ارب ڈالر تھے ، جبکہ معاشی ترقی کی شرح 6 فیصد پر پہنچ چکی تھی، مگر عالمی ادارے نے پیشگوئی کی تھی کہ پاکستان 2023ء تک دنیا کی 18 ویں عالمی معیشت ہوگی جہاں اطالوی اور کینیڈین ہمارے پیچھے ہونگے ۔ نہ صرف یہ بلکہ جوہری صلاحیت کی وجہ سے پاکستان جی 20کے دیگر19 رکن ممالک کیساتھ اجلاس میں شریک ہوسکتا ہے ۔وزیرخزانہ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ملک کی سیاسی جماعتیں مل کر کام کریںاور 2023ء میں اس مقام تک پہنچنا چاہئے جس کیلئے ہمیں سخت محنت کرنا ہوگی ۔ انہوں نے کہاکہ اب پاکستان کیلئے یہ پیشگوئی کی جارہی ہے کہ 2024ء تک عالمی معیشت میں پاکستان 54ویں نمبر پر ہوگا جس پر مجھے بہت افسوس ہوا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ چین سے بھی قرضے ری شیڈول کرنے کے بارے میں بات کرینگے ، یقین ہے قرض کی ری شیڈولنگ ضرورہوجائیگی،افراتفری پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے ، پاکستان کسی صورت ڈیفالٹ نہیں کریگا، ہماری معیشت صحیح سمت میں جارہی ہے ۔ پہلے بھی معیشت ٹھیک کرکے دکھائی ہے اور اب بھی کرینگے ۔ وزیرخزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ اگر میں ناکام ہوتا تو چوتھی دفعہ وزیرخزانہ نہ بنتا ۔ہم جی ڈی پی گروتھ بڑھائیں گے۔ تاہم سیلاب کے باعث اس سال گروتھ 2 فیصد رہے گی۔ ماضی میں بھی معیشت کو سنبھالادیا، اب بھی کرینگے ۔
پاکستان کو ٹھیک کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ سیاست بعد میں ہوتی رہے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایک ارب ڈالر کا بانڈدسمبر میں شیڈول کے مطابق میچور ہوگا ،جس کی بروقت ادائیگیاں ہونگی۔ سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے ۔ ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچانے میں ہم کامیاب ہوگئے ہیں ۔ وزیراعظم سے بات کی ہے کہ پیرس کلب سے قرض ری شیڈول کرنا مناسب نہیں ۔ اگر پیرس کلب سے ریلیف بانڈز میچورٹی کی ادائیگیاں نہ کریں تو یہ گھساپٹا اقدام ہوگا۔ وزیرخزانہ کی ان باتوںسے مجھے کافی حوصلہ ملا ہے ،میں ان سے یہ امید لگائے بیٹھا ہوں کہ وہ پٹرول کی قیمتوں میں مزید کمی کرینگے اور بجلی کے بلوں میں بھی عوام کو ریلیف فراہم کرینگے۔