ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا سنسنی خیز مقابلہ ، متنازع نو بال پر بھارت جیت گیا
ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ مزہ اسی میں ہے کہ مقابلہ ڈٹ کر کیا جائے۔ ٹی ٹونٹی کے گزشتہ روز کے میچ میں پاکستان کا اپنے روایتی حریف بھارت کے ساتھ پہلا میچ سنسنی خیز رہا۔ میلبورن کا سٹیڈیم تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ایک متنازع نو بال نے اس میچ میں بھارت کو کامیاب قرار دیدیا اور آخری گیند پر اس نے پاکستان کو 4 وکٹوں سے ہرا دیا۔ اس میچ میں نو بال پر عالمی کرکٹ کے ماہرین بھی اختلافی رائے دے رہے ہیں مگر میچ ختم ہو چکا اب بحث کتنی بھی طویل کیوں نہ ہو اس سے فیصلہ تو تبدیل نہیں ہونا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اسی روز انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے پاکستان ٹیم کے کپتان بابر اعظم کو کرکٹ کنگ قرار دیا۔ وہ اپنی تاج والی تصویر دیکھ کر اس خوشی سے باہر نہیں نکلے ہوں گے کہ پہلے ہی میچ میں ایک بار پھر بنا کوئی کھاتہ کھولے صفر پر چلتے بنے۔ یہی حال رضوان کا تھا وہ 4 پر آئوٹ ہوئے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا یہ پانچویں مرتبہ ہے کہ بابر اعظم انڈے پر آئوٹ ہوئے۔ کیا بہتر نہیں کہ وہ اب دوسروں کی نصیحت پر بھی عمل کر کے دیکھیں۔ کسی نئی جوڑی کو اوپنگ کرنے دیں۔ خود تیسرے یا چوتھے نمبر پر کھیلیں ضروری نہیں آپ پہلے نمبر پر آ کر میچ جتوائیں۔ بہرحال جس طرح ہمارے کئی کھلاڑی ڈبل فگر کراس نہ کر سکے وہ بھی افسوس کی بات ہے۔ آخر یہ سب کس نفسیاتی دبائو کا شکار تھے۔ یہ تو شان مسعود اور افتخار احمد کی نصف سنچریاں کام آ گئیں ورنہ یہ 159 رنز بھی نہ بن پاتے۔
٭٭٭٭
کراچی دنیا کے آلودہ شہروں کی فہرست میں نمبر ون
لگتا ہے لاہور اور کراچی میں ریس لگی ہے کہ کون نمبر ون بنتا ہے اور کون نمبر 2 آتا ہے۔ یہ ریس اگر ترقی کی خوشحالی کی ہوتی تو پورا ملک اس دوڑ کو دلچسپی سے دیکھتا یہ دوڑ ایک ایسے معاملے میں لگی ہے جس پر شرمندگی کی وجہ سے کوئی نظر نہیں ملا پاتا۔ جی ہاں چند روز پہلے تک لاہور دنیا کا سب سے آلودہ شہر قرار پا کر عالمی ریٹنگ میں نمبر ون تھا آج کراچی نے نہایت محنت کے بعد یہ اعزاز لاہور سے چھین لیا اور کراچی دنیا کے آلودہ شہروں میں نمبر ون قرار پایا ہے۔ حیرت کی بات ہے دہلی، ڈھاکہ، کابل جیسے گندے شہر نچلے نمبروں پر ہیں۔ یہ چونکہ فضائی آلودگی کا پیمانہ ہے۔ اس لیے شاید اگر گندگی کی آلودگی ہوتی تو باقی شہر ہمارے ان دو شہروں سے کافی بہتر نظر آتے ۔ اب معاملہ ائیر انڈیکس کوالٹی کا ہے ۔ اس میں دھواں، مٹی، دھول، اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لاہور اور کراچی پر ہمہ وقت گرد و غبار کا طوفان سا چھایا نظر آتا ہے رہی سہی کسر ناکارہ گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں نکال دیتا ہے جو آلودگی میں ہر لمحہ اضافہ کرتا رہتا ہے۔ آگے سموگ کا سیزن آ رہا ہے۔ کچرا جلانے، فصلوں کی باقیات جلانے سے جو غلیظ دھواں اٹھے گا وہ ان شہروں پر سیاہ مہیب چادر تان دے گا۔ جس سے طرح طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ اس کا مداوا کون کرے۔ نہ پہلے کسی سے ہو سکا نہ اب ہو گا۔ ہم اسی طرح اس آلودہ فضا میں سانس لیتے رہیں گے اور بیماریاںہمیں گھیرے رہیں گی۔
٭٭٭٭
لانگ مارچ کے لیے تیار ہو جائو لاہور کی سڑکوں پر بینر لگ گئے
لاہور کی سڑکوں پر ایسے بینر لگانے کی روایت بہت پرانی ہے۔ کبھی قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ کبھی چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر، کبھی مرد مومن مرد حق ضیاء الحق کبھی جنرل مشرف زندہ باد پھر آئے گا عمران بنے گا نیا پاکستان، جیسے بینر کچھ عرصہ لہرانے کے بعد چیتھڑوں کی شکل میں یا سڑکوں بکھرے نظر آتے ہیں اور کبھی بلدیہ والے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اتار کر لے جاتے۔ ان بینروں کا سب سے زیادہ فائدہ سڑکوں کنارے پڑے ہوئے نشئی اور غریب مزدور اٹھاتے وہ انہیں اتار کر اس سے نیچے بچھانے کے لیے گدا اور اوپر اوڑھنے کے لیے چادر بنا لیتے۔ یہ تو برا ہو پنیا فلیکس بنانے والوں کا جن کی وجہ سے یہ سلسلہ کم ہوا کیونکہ پنیا فلیکس اوڑھنے بچھانے کے کام نہیں آتا۔ پھر بھی کئی نشئی اور غربا اسے بھی کام لینے میں عار نہیں سمجھتے۔ اب عمران خان جمعرات یا جمعہ کولانگ مارچ کا اعلان کرنے والے ہیں اس لیے پی ٹی آئی والے متحرک ہو گئے ہیں۔ اس وقت پنجاب اور خیبر پی کے میں ان کی حکومت ہے۔ لانگ مارچ کی تیاری کے حوالے سے رنگ برنگے بینر لاہور تا پشاور اپنی بہار دکھائیں گے۔ حکومتی سرپرستی کی وجہ سے کوئی انہیں پھاڑ یا اتار بھی نہیں سکے گا یوں جب تک لانگ مارچ ہو نہیں جاتا یہ بہار سجی رہے گی۔ اب پنجاب انصاف فورس خدا جانے کب بنی اس نے عمران ٹائیگرز کے بطن سے جنم لیا ہے یا انصاف یوتھ سے معلوم نہیں۔ لاہور میں تو ان کے بینر لگ گئے ہیں۔ اب ق لیگ والے ایسے بینرز کب لگاتے ہیں انتظار ہے۔ کیونکہ وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی اور وفاقی وزیر مونس الٰہی اس لانگ مارچ کے زبردست حمایتی ہیں۔ لگتا ہے پنجاب حکومت اپنے صوبے میں شرکا کے کھانے پینے اور کیمپوں کا اہتمام بھی خود کر کے خود ثواب کمائے گی۔ویسے بھی چودھریوں کا دستر خوان مشہور ہے۔
٭٭٭٭
ٹرین میں نماز پڑھنے والے 4 مسلمانوں کیخلاف مقدمہ درج۔ ہراسگی پر مسلم طالبہ نے خودکشی کر لی
یہ دو واقعات چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ بھارت میں آباد سب سے بڑی مذہبی اقلیت کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ یہ کوئی چند ہزار یا چند افراد نہیں کم و بیش 22 کروڑ مسلمان ہیں جو پورے بھارت میں آباد ہیں۔ یہ بیرونی آباد کار بھی نہیں بھارت کے اپنے باشندے ہیں۔ بھارت ان کی جنم بھومی ہے جس طرح باقی ہندوئوں کی۔ ان کا قصور صرف یہ ہے کہ ان کے آبائو اجداد نے اسلام قبول کیا اور ہندومت چھوڑ دیا۔ یہ بات اب تک جنونی متعصب بھارتی انتہا پسند ہندوئوں اور ان کی مذہبی تنظیموں سے ہضم نہیں ہو رہی۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ سب مسلمانوں کو اٹھا کر بحیرہ عرب میں پھینک دیں۔ یہ جنونی انتہا پسند کھلے عام مسلمانوں کو عرب ممالک یا پاکستان جانے کا مشورہ دیتے پھرتے ہیں۔ خود لاکھوں ہندو عرب ممالک میں نوکریاں کر کے روزی کما رہے ہیں۔ کاش ہمارے عرب بھائیوں میں بھی مسلم قومیت اور امہ کا تصور بیدار ہو۔ اب یہی دیکھ لیں اترپردیش میں 4 مسلمانوں نے ٹرین میں نماز کیا ادا کی اس پر بھی ہندو آگ بگولا ہو گئے ہیں۔ اب نماز کا وقت تھا، ٹرین نہ ہوتی ہوائی جہاز یا بحری جہاز بھی ہوتا تو مسلمانوں نے نماز پڑھنی ہی تھی۔ اب ان کے خلاف مقدمہ کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف میرٹھ میں ایک مسلمان طالبہ نے صرف اس لیے خودکشی کی ہے کہ اس کی کلاس میں ہندو لڑکا اسے ہراساں کرتا تھا اورگزشتہ دنوں اس نے لڑکی کو چھیڑ خانی کے ساتھ تھپڑ بھی مارا جس سے دلبرداشتہ ہو کر اس لڑکی نے خودکشی کر لی۔ اب پولیس نے ملزم کو پکڑ تو لیا ہے۔ کیا اسے سزا ملے گی یا پولیس اور عدالتوں کی ملی بھگت سے وہ دوسرے قاتلوں کی طرح رہا ہو جائے گا۔