فلم میں میوزیکل پرفارمنس بہت مشکل تھی

فلمیں ترجیحات میں ہیں ڈرامہ نہیں
دا لیجنڈ آف مولا جٹ میں رجو کا کردار کرنے والی صائمہ بلوچ سے انٹرویو
ساس بہو کی روایتی کہانیوں والے ڈرامے نہیں کر سکتی 
کیرئیر میں بہت بار امیتازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عنبرین فاطمہ 
’’ دا لیجنڈ آف مولا جٹ ‘‘  پاکستان کی پہلی فلم ہے جس نے بزنس کے نئے ریکارڈز قائم کر دئیے ہیں اس فلم کا ہر کریکٹر شائقین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ فلم میں کوئی گانا نہیں ہے لیکن ایک میوزیکل پرفارمنس ضرور ہے ۔ یہ شاندار میوزیکل پرفارمنس جس اداکارہ نے دی ہے اس کا نام ہے صائمہ بلوچ۔ صائمہ بلوچ کے کردار سے ہی فلم کا آغاز ہوتا ہے ۔ایک ڈانس رئیلٹی سے اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والی صائمہ بلوچ دا لیجنڈ مولا جٹ سے قبل دو فلمیں اور کئی کمرشلز کر چکی ہیں۔نوائے وقت نے گزشتہ دنوں’’ صائمہ بلوچ ‘‘ سے خصوصی انٹرویو کیا۔ صائمہ بلوچ نے بتایا کہ انہیں رجو کا کردار کیسے ملا۔ انہوں نے کہا کہ فلم کی پرڈیوسر عمارہ حکمت نے مجھ سے آڈیشن مانگا تھا ، مجھے جس طرح سے یہ کردار سنایا گیا میں نے اسی گیٹ اپ میں آڈیشن دیا مجھے اگلے روز پتہ چلا کہ فلم کے ڈائریکٹر بلال لاشاری نے مجھے اوکے کر دیا ہے ۔ اس کردار کے لئے انہوں نے چار سال تک آڈیشنز لئے لیکن انہیں کوئی لڑکی نہ مل سکی ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ اس کریکٹر کے لئے سلیکٹ نہ ہوتیں تو بلال لاشاری شاید فلم سے ہی اس کردار کو نکال دیتے، اس پر صائمہ نے کہا کہ یہ بالکل سچ ہے کیونکہ بلال نے بہت ساری لڑکیوں کے آڈیشن لئے لیکن ان کو رجو نہ مل سکی ۔ مجھے جب یہ کردا ر آفر ہوا اس وقت میں فلم بے تابیاں کررہی تھی جو کہ 2019میں ریلیز ہوئی تھی ، تو مجھے لگا کہ اس کردار کا چونکہ سکرین ٹائم زیادہ نہیں ہے اس لئے میں نے انکار کر دیا پھر مجھے جب پتہ چلا کہ انہیں کوئی لڑکی نہیں مل رہی ہے تو میں نے پھر سے سوچا اور مجھے لگا کہ مجھے یہ کردار کرنا چاہیے اور شاید یہی وہ کردار ہو جو میری کرنے کی خواہش رہی ہو لہذا میں نے وہ کردار کیا اوراس کے ساتھ مکمل انصاف کرنے کی کوشش کی ۔انہوں نے کہا کہ مجھے رجو ایک ہیر کی طرح لگی تھی بس اس کردار کو اپنے اندر سمو لیا اور کیا کیسا کیا یہ تو آپ سب ہی بتا سکتے ہیں۔ صائمہ بلوچ نے کہا کہ بلال لاشاری چاہتے تھے کہ یہ میوزیکل پرفارمنس روٹین کا آئٹم نمبر نہ لگے لہذا میں نے اور میرے کوریوگرافر نے یہ میوزیکل پرفارمنس ایسی بنائی کہ یہ صوفیانہ بن گئی۔انہوں نے اپنے کردار کے حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کریکٹر کے ساتھ اتنا ظلم کر دیا جاتا ہے کہ وہ میوزیکل پرفارمنس کے دوران خدا سے کنیکٹ کرتاہے اور کہتا ہے کہ اے اللہ اس ساری صورتحال سے نجات کیلئے کسی کو بھیج دو۔ تو اسی وقت پھر مولا جٹ آتا ہے۔ صائمہ بلوچ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ٹھیک ہے کہ میں ایک ایسے پراجیکٹ کا حصہ بنی جس میں فواد خان ، ماہرہ خان ، حمزہ علی عباسی اور حمائمہ ملک و دیگر تھے لیکن میرے لئے اہم یہ ہوتا ہے کہ میرا کردار کیا ہے ، ڈائریکٹر کون ہے کہانی کیسی ہے۔ ماہرہ فواد حمزہ علی عباسی یہ سب بہت اچھے فنکار ہیں لوگ انہیں پسند کرتے ہیں میں بھی ان کو پسند کرتی ہوں ان کے ساتھ کام کیا یہ موقع بھی کیرئیر کے اس موڑ پر ملنا میرے لئے یقینا ایک اچھی چیز ہے لیکن میں کاسٹنگ سے زیادہ ڈائریکٹر اور کہانی کردار کو دیکھنے پر یقین رکھتی ہوں۔ مجھے ڈرامے آفر ہوتے رہے ہیں ابھی ہوتے ہیں لیکن میں روٹین کی کہانیوں والے ڈراموں میں کام نہیں کرنا چاہتی وہی ساس بہو کے جھگڑے والے ڈرامے مجھ سے ہوں گے نہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ڈراموں میں کام کرنا میری ترجیحات میں کبھی نہیں رہا ۔ ہاں اگر کوئی بہت اچھا کردار آفرہوا تو شاید کر بھی لوں لیکن میرا شروع سے دھیان ڈانس اور فلموں میںکام کرنے پر مرکوز رہا ہے۔میں نے جب رئیلٹی شو نچ لے سے کامیابی حاصل کی تھی تو میں نے سوچ لیا تھا کہ ایسا کام کرنا ہے جس سے شناخت بنے اور میری شناخت دا لیجنڈ آف مولا جٹ کے بعد بنی ہے اب لوگ پہچانتے ہیں کہ صائمہ بلوچ نام کی بھی کوئی لڑکی ہے جو بہت اچھی اداکاری کرنے کے ساتھ ڈانس بھی کر لیتی ہے۔ صائمہ بلوچ نے کہا کہ رئیلٹی شو میں سلیکٹ ہونا بھی کسی بڑے چانس سے کم نہ تھا ، میں نے کمرشلز میں بھی کام کیا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے آج تک جو کیا ہے اس سے مطمئن ہوں کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ میں نے جو بھی کیا ہے وہ بہت محنت کے ساتھ کیا ہے مزید بھی اس محنت کو جاری رکھوں گی۔ صائمہ بلوچ نے مزید یہ بھی کہا کہ اگر دل لگا کر اور محنت کے ساتھ کام کیا جائے تو منزل جتنی بھی دور ہو ملتی ضرور ہے۔ میں نے کیرئیر میں بہت زیادہ اتار چرھائو دیکھے 12سالہ کیرئیر میںمجھے امیتازی سلوک اوررویوں کا سامنا رہا لیکن میں نے کسی بھی موڑ پر ہمت نہیں ہاری ۔ میرا ماننا ہے کہ کام کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ضرور ہے لیکن وہ ہر رکاوٹ کو پار کرلیتا ہے، میں نے بھی کیا اور کس طرح سے کیا یہ ایک لمبی سٹوری ہے جس پر میں کبھی بات کرنا چاہوں گی۔ صائمہ بلوچ نے آخر میں کہا کہ میرے پرستار مجھے اچھے پرجیکٹس میں دیکھیں گے ، اس فلم کے بعد میرا بہت حوصلہ بڑھا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ میرا کردار شائقین پسند کررہے ہیں۔ میں نے کبھی بھی اپنے کام میں کسر نہیں چھوڑی چاہے جب جب جو بھی کیا۔صائمہ بلوچ نے جہاں اپنے کردار کے بارے میں تفصیل سے بتایا وہیں انہوں نے یہ شکوہ کیا کہ مجھے فلم دا لیجنڈ آف مولاجٹ کی پرموشن پر بری طرح نظر انداز کیا گیا ۔ فلم کی ریلیز کا اعلان کر دینے کے باوجود بھی مجھے پریمئیر کب ہے نہیں بتایا جا رہا تھا ۔میں ایک جنونی آرٹسٹ ہوں کام کرنا چاہتی ہوں لیکن مزید جو بھی کام کروں گی اور جس کے ساتھ بھی کام کروں گی نہایت سوچ سمجھ کر ہی کروں گی ، کیونکہ جب آپ کسی کام کو توجہ کے ساتھ کریں اور پھر آپ کو نظر انداز کر دیا جائے تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ صائمہ نے کہا کہ مجھے بہت افسوس ہے کہ فلم میں ایک اچھی میوزیکل پرفارمنس دینے کے باوجود بھی مجھے نظر انداز کیا گیا ۔
 

ای پیپر دی نیشن