نام لینا مناسب نہیں، شاید انہوں نے بچپن میں جہاز کا سفر تک نہ کیا ہوگا، بسوں اور ٹرینوں میں آتے جاتے رہے۔ قسمت سیاست میں لے آئی اور سیاست نے وزیر اور پھر وزیر داخلہ بنادیا۔ جب بھی ان کی فلائٹ ہوتی،حکم آتا ''میں امور مملکت میں مصروف ہوں۔ جب تک نہ آ جا¶ں جہاز کو روکا جائے'' ۔ عرض کیا کہ جناب عالی یہ ہمارے بس میں نہیں۔ اس پر وہ سخت برہم ہوتے۔ ہمیشہ آخر وقت میں آتے جب جہاز اڑنے والا ہوتا اور آخر ایک روز جہاز اڑ ہی گیا۔ تھوڑا رک جاتا تو شاید ہم اس ڈانٹ سے بچ جاتے جو ہمیں بعد میں سننے کو ملی۔ کہا گیا کہ تم کیسے افسر ہو ؟ ائرپورٹ تمہارے علاقے میں ہے اور ایک جہاز کو نہ رکوا سکے۔ دبے لفظوں میں کہنے کی کوشش کی کہ حضور غلطی آپ کی ہے مگر ان کا غصہ مزید بڑھ گیا اور ہم نے چپ رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔ میرا غالب خیال ہے کہ وہ جان بوجھ کر لیٹ آتے اور اس طرح ان کے بچپن کی احساس محرومی کو تقویت ملتی۔ ان ہی وزیر موصوف کے ساتھ ایک دفعہ فرانس جانے کا اتفاق ہوا۔ فرانسیسی حکام کے ساتھ انٹ شنٹ گفتگو کرتے رہے ” سر نہ پیر“ شام کو جب ہم لوگوں کے درمیان بیٹھے تو عرض کیا کہ جناب آپ یہ کیا فرما رہے تھے؟ سب باتیں غلط تھیں۔ جب ہمیں آپ کی بات کا یقین نہیں تو دوسرے لوگ کیسے کریں گے؟ کہنے لگے، ''بس جو میں نے کہہ دیا وہی صحیح ہے۔ تم لوگوں کو کیا معلوم کہ سیاست کیا ہوتی ہے اور سفارتی گفتگو کیسے کی جاتی ہے''۔ بظاہر لگتا ہے کہ بیوروکریسی کی نوکری بڑے مزے کی ہے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں اور بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس میں بڑی ٹور بھی ہے لیکن اندر کی بات ہم جانتے ہیں کہ بالاحکام یا حکومت وقت کی بات نہ ماننے پر بیک جنبش قلم کرسی کھینچ لی جاتی ہے۔ کوئٹہ میں ''بڑے'' صاحب کے بیٹے نے اپنی گاڑی سے ٹکر مار کر ایک غریب اور معصوم کی جان لے لی.غلطی بھی صاحبزادے کی تھی لہذا گرفتار ہوگئے۔ اعلیٰ حکام سخت برہم ہوئے کہ تم نے یہ کیا کیا؟ ہم سے
پوچھے بغیر اتنے بڑے آدمی کے بیٹے کو گرفتار کرلیا۔ لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ قصاص ودیت کا معاملہ ہے۔ دیت اد ا کریں تاکہ غریب کو انصاف مل سکے۔ لیکن غریب کو کیا انصاف ملتا، مجھے ہی سیٹ سے ہٹا دیا گیا۔ اسی طرح کا ایک کیس اسلام آباد میں بھی ہوا۔ عدالت سے ایک انتہائی طاقتور بزنس مین کا وارنٹ گرفتاری جاری ہو گیا۔ میں نے جب اپنے لوگوں کو کہا کہ وارنٹ کی تعمیل کی جائے تو سب سٹپٹا گئے اوپر سے بھی پریشر آنا شروع ہوگیا کہ ان کو ہرگز گرفتار نہ کیا جائے۔ میں نے معصومانہ انداز میں عدالت کا حکم ماننے کے حق میں دلائل دیئے۔ وہ کیا گرفتار ہوتے، الٹی مجھے ہی ڈانٹ پڑ گئی۔
ایس ایس پی اسلام آباد کے زمانے میں تو بڑا لطیفہ ہوگیا۔ ابھی چارج سنبھالا ہی تھا کہ شہر میں ایک گاڑی چوری ہوگئی۔ حکم آیا کہ شہر میں ہرگز کوئی گاڑی چوری نہیں ہونی چاہیئے لیکن قسمت کو شاید ہماری ایس ایس پی کی پوسٹ اچھی نہیں لگ رہی تھی. اگلے روز مزید دو گاڑیاں چوری ہو گئیں اور پھر ہر روز کوئی نہ کوئی قابل ذکر جرم کی واردات ہوتی۔ اوپر سے کہا گیا کہ ہمارا حکم تھا کہ گاڑی چوری نہیں ہونی چاہیئے پھر ہماری حکم عدولی کیوں ہو رہی ہے۔ جان کی امان مانگ کر عرض کیا کہ جرم نہ آپ کے حکم سے ہوتا ہے اور نہ ہی رکتا ہے۔ یہ جرائم پیشہ لوگ کرتے ہیں جو ہمارے ماتحت نہیں۔ جرم روکنے کے لئے اس کا سدباب کرنا ضروری ہے جو ہم کررہے ہیں اور چوری شدہ گاڑیوں کو برآمد کرنے کی بھی پوری کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن بڑے صاحب بضد رہے کہ جب انہوں نے کہہ دیا کہ گاڑی نہیں چوری ہونے چاہیئے تو نہیں ہونی چاہیئے۔ No more discussionاگر سرکاری نوکری میں آپ ہاں میں ہاں ملاتے رہیں یا 'yes sir' کرتے رہیں تو ٹھیک ورنہ ڈانٹ کھانے کے لئے تیار رہیں۔ خواتین اور بچوں سے زیادتی کے واقعات نہایت دردناک ہوتے ہیں۔ اکثر لوگ معاشرے میں بدنام ہونے کے ڈر سے ان کو دبانے یا چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ایک سیاسی رہنما نے ایسے واقعات میں ذاتی دلچسپی لینی شروع کردی۔ جونہی کوئی واقعہ ہوتا تو فوراً موقع پر پہنچ جاتے۔ فوٹو سیشن ہوتا، اخبار اور ٹی وی میں خبر چلتی اور یوں جس کو نہیں بھی معلوم تھا اس کو بھی پتہ چل جاتا بلکہ پورے ملک میں خبر عام ہو جاتی کہ کہاں اور کیسے زیادتی ہوئی۔ اور اس کے بعد خاموشی.... ایسے ہی ایک واقعہ پر جناب حسبِ عادت پہنچ گئے۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ پوچھا گیا کہ ایس ایس پی صاحب یہ واقعہ کیسے ہوا؟ میں نے جواب دینے کی کوشش کی کہ ملزم ایک ٹوٹی ہوئی فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔ نہ تعلیم اچھی نہ ہی تربیت۔ ہوس کا مارا ہوا تھا اور موقع ملنے پر نہتی اور مظلوم عورت کے ساتھ زیادتی کر بیٹھا۔ ہم تحقیقات کر رہے ہیں اور ملزم کو قرار واقعی سزا دلوائیں گے۔ کہنے لگے نہیں، میں پوچھتا ہوں کہ یہ واقعہ کیسے ہوا؟ میں تھوڑا حیران ہوا اور پھر کچھ تفصیل بتانے کی کوشش کی۔ اب جناب کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔ میری قسمت اچھی تھی کہ عین اس موقع پر پر ڈی آئی جی صاحب تشریف لے آئے۔ وہ منجھے ہوئے اور جہاندیدہ افسر تھے۔ انہوں نے ڈی آئی جی سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ میں ایس ایس پی سے پوچھ رہا ہوں کہ یہ واقعہ کیسے ہوا اور یہ مجھے الٹی سیدھی کہانیاں سنا رہا ہے۔ ڈی آئی جی صاحب نے جواب دیا، سر آپ مطمئن رہیں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسا واقعہ دوبارہ نہیں ہوگا۔ کہنے لگے، '' '' Yes, this is the answer (ہاں، یہ جواب ہونا چاہیئے) اور مطمئن ہو کر خوشی خوشی چلے گئے۔ کہاں افسر شاہی اور کہاں غریب چھوٹے ملازم۔ سبّی میں تعیناتی کے دوران ایک سردار نے کھانے پر بلایا۔ خوب اہتمام کیا ہوا تھا جیسے کہ عموماً سردار کسی بھی دعوت پر کرتے ہیں۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ میرا گن مین اور ڈرائیور دونوں کی طبیعت بدہضمی کی وجہ سے خراب ہوگئی۔ میں نے ان کو بلا کر سرزنش کی کہ کیوں زیادہ کھانا کھایا۔ ان کے جواب سے میرے پا¶ں تلے زمین نکل گئی اور دل ہی دل میں سخت شرمندہ ہوا۔ ان کا جواب تھا ، ''سر، ہمیں تو یاد بھی نہیں کہ ہم نے آخری دفعہ گوشت کب کھایا تھا''کبھی کبھی معاشرے کا یہ تضاد دکھی کر دیتا ہے۔ ہم شہروں کی بلند و بالا عمارتیں، ریستورانوں میں چہل پہل یا وڈیرے کو ہر سال نئی گاڑی خریدتے دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ سب خوشحال ہیں۔ غریب کے چولہے پر جھانکنے کی شاید ہمیں فرصت نہیں۔
ًٰ