اوآئی سی وزراءاطلاعات کانفرنس اور پاکستان

Oct 25, 2022


 او آئی سی کی طرف سے استنبول میں جہاں اسلامی ممالک کو درپیش مسائل و مشکلات کے حوالے سے اہم تجاویز سامنے آئیں وہاں ایک بار پھر اسلامو فوبیا کا ایشو بھی زیر بحث آیا جس پر قابو پانے کی غرض سے اہم فیصلے کئے گئے ۔ دیکھا جائے توہماری وزیراطلاعات مریم اورنگزیب صاحبہ اجلاس کے تینوں روز کافی متحرک اور پرُجوش نظر آئیںجنہوں نے نہایت اہم اور موثر تجاویز بھی اسلامی وزراءخارجہ کے سامنے پیش کیں جنہیں تنظیم نے قابل عمل قرار دیتے ہوئے اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیا بلکہ ان پر عملدرآمد کےلئے احکامات بھی جاری کر دیئے گئے ۔ مریم اورنگزیب صاحبہ کا کہنا تھا کہ پوری دُنیا کو جہاں دیگر مصائب و مشکلات کا سامنا ہے وہاں فیک نیوز بھی نوجوانوں کو گمراہی کے رستے پر ڈال رہیں ہیں اس لئے اب ضروری ہو گیا ہے کہ دُنیا خاص طور پر عالم اسلام اس کے پھیلاو¿ کو روکنے کےلئے متفقہ لائحہ عمل وضع کرے ۔ مزید کہنا تھا کہ فیوک نیوز کا مقابلہ صرف سچی خبروں سے ہی کیا جانا ممکن ہے اس لئے عالمی میڈیا خصوصاً اسلامی میڈیا کو چاہیے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو سکے عوامی رائے عامہ کو فیک نیوز کے مہلک اثرات سے محفوظ رکھے بلکہ فیک نیوز کے خاتمے کےلئے مربوط لائحہ عمل تیار کر کہ ا س پر فوری طور پر عمل در آمد کو بھی یقینی بنائے بنایا جائے ۔اس سلسلے میں انہوں نے سوشل میڈیا کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں سوشل میڈیا کا غلط استعمال تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور ایک مخصوص سیاسی جماعت اس کا بھر پور فائدہ اُٹھا بھی رہی ہے جس پر بھی قابو پانے کےلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں ۔تاہم ضرور ت اس بات کی ہے کہ تمام اسلامی ممالک بھی فیک نیوز کے خاتمے کےلئے اپنا کردار ادا کریں ۔اجلاس میں مریم اورنگزیب کی طرف سے دی جانے والی” پاک ترک کلچر ڈے“ کی تجویز کاخیر مقدم کیا گیا بلکہ اس پر عملدرآمد کےلئے بھی کہا گیا جس میں دونوں ملکوں کے ڈراموں اور فلموں کی تیاری میں مشرکہ تعاون کے عزم کا اظہار کیا گیا ۔او آئی سی وزراءخارجہ کے اس اجلاس میں مریم اورنگزیب نے خطے میں امن و سلامتی کی ضرورت پر بھی اپنے خطاب میں زور دیا اور کہا کہ دُنیا خاص کر جنوبی ایشیاءمیں مسلمانوں کےخلاف آئے رو ز کی جانے والی تقاریر باعث تشویش ہیں جس کے پیش نظر امت مسلمہ کو مل کر کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی آواز کو بلند کرنا ہوگا جس سے ایک طرف مسلم ریاستوں میں ہم آہنگی پیدا ہوگی تو دوسرا انہیں ایکدوسرے کے قریب آنے کا موقع بھی ملے گا ۔اس موقع پر انہوں نے پاکستان کی ترک فلمی میلے میں شرکت کا اعلان بھی کیا ۔   عالم اسلام کے مسائل کے حل کےلئے قائم کی جانے والی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی )کے کردار پر نگاہ ڈالی جائے تو اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ گو کہ یہ تنظیم اپنے قیام کے کافی عرصہ بعد تک اپنے قیام کے مقاصد پورے کرنے میں کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں دکھا سکی تھی مگر پچھلے سال ڈیڑھ سال سے اس تنظیم میں بیداری کی جو لہر اچانک بیدار ہوئی ہے وہ یقینی طور پر قابل تعریف ہے ۔تنظیم کے اپنے قیام کے مقاصد پورے نہ کئے جا سکنے کی وجوہا ت کو دیکھا جائے تو اس تنظیم کا سارا انتظام و انصرام شروع سے چونکہ ایک اہم ترین عرب ملک کے ہاتھ میں ہی رہا جس کے تنظیم کے مقاصد سے کہیں زیادہ اہم اس کے اپنے مقاصد کارفرما رہے جس کے پیش نظر ہم بھی اوآئی سی سے قریبا ًقریبا ً دل برداشتہ سے ہی ہو چکے تھے مگر یہ اب غالباً رواں برس ہی کی بات ہے جس میں متذکرہ عرب ملک کی او آئی سی کے حوالے سے سوچ میں حیرت انگیز طور پر مثبت تبدیلی دیکھنے میں آئی اور او آئی سی متحرک ہوگئی ۔ابھی رواں برس میں ہی تنظیم کے پاکستان میں اوپر تلے تین اجلاس منعقد ہوئے جس میں نہ صرف افغانستان کو درپیش معاشی مسائل کے حل میں حوصلہ افزاءپیش رفت ہوئی بلکہ اقوام متحدہ میں متذکرہ تنظیم ہی کی کاوشوں کے نتیجے میں اسلامو فوبیا جیسے قابل مذمت مسئلہ کے حل میں بھی مدد دینے کی غرض سے ہر سال 15مارچ کے دن کو اسلامو فوبیا کےخلاف عالمی دن کے طور پر منانے کی قرارداد منظور کی گئی جس پر عالم اسلام نے اطمینان کا اظہار کیا تھا ۔اگر ہمیں ”اپنے منہ میاں مٹھو “نہ سمجھا جائے کہ ا س کی توجیسے روایت ہی بنی چکی ہے تو ہم نے اس وقت جب افغانستان میں طالبان انتظامیہ کے حکومتی نظام سنبھالنے ہی امریکی رویے تبدیل ہو گئے اور افغانستان کے نو ارب ڈالرز سے زیادہ کے امریکی ڈالرز منجمد کر دئیے گئے تو تب افغانستان کی مدد کےلئے اسی او آئی سی سے مدد لئے جانے کی ہم نے ہی اپنے کالم میں تجویز پیش کی تھی اور جو ریکارڈ پر ہے اور اتفا ق سے پھر ایسا ہوا بھی کہ پاکستان میں چند ماہ پہلے او آئی سی ہی کے ایک اجلاس کی کوشیشوں کے نتیجے میں امریکی حکومت نے انگڑائی لی اور افغانستان کے لئے تین ارب ڈالرز جاری کر دیئے گئے ۔استنبول میں ہونے والے او آئی سی کے تاز ہ ترین اجلاس میں ہماری وزیر اطلاعات نے اسلامی ملکوں کو ایکدوسرے کے قریب لانے کی جس خواہش کا اظہار کی ہے وہ قابل تعریف تو ہے ہی ہے مگر اجلاس سے اپنے خطاب کے دوران فیک نیوز کے خاتمے یا کم از کم اس پر قابو پانے کے لئے جو تجاویز دی ہیں ان تجاویز کو ہم اپنے ملک کے تنا ظر میں دیکھیں تو یہ بہت زیادہ اہم دکھائی دے رہیں ہیں کیونکہ واقعی پاکستان میںفیک نیوز کا تو جیسے بازار ہی گرم رہتا ہے ہمہ وقت اور یہ سب کچھ سوشل میڈیا پر بڑی بے پرواہی اور ڈھٹائی سے جاری ہے مگر مقام اطمینان ہے کہ موجودہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں گو کہ یہ سلسلہ مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوا مگر اس میں کسی حد تک کمی ضرور دیکھنے میں آرہی ہے جسے حوصلہ افزاءقرار دیا جا سکتا ہے ۔جہاں تک رہی بات پاکستان اور ترکی دونوں ملکوں کے ثقافتی ڈراموں وفود کے تبادلوں کی تو یہ اچھی بات ہے یہ کوششیں بھی ہونی چاہیں ۔
        

مزیدخبریں