"سیاست سے پرے "


"سلام عورت "
شاز ملک فرانس
میں اس معاشرے کی فرد ہوں جہاں عور ت آج بھی صنف نازک تصور کی جاتی ہے۔۔ 
سیاست سے پرے سیاسی معاملات ٹی وی شوز ٹاک شوز سے کوسوں دور ہوں مگر کبھی کبھار کچھ نہ کچھ اپنے ملک کے سیاسی حالات سے آگاہی ملتی رہتی ہے جس بات نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا 
وہ اس بات سے قطع نظر ہے کہ سیاست میں کون کیا ہے کس کا سیاسی کردار کیا ہے سیاسی مفادات کے لئیے کون استعمال ہوا اور کون استعمال کر رہا ہے 
میں عورت کے کردار کو مد نظر رکھتی ہوں اور ہمارے ملک پاکستان میں بے انتہا ذہین عورتیں پیدا ہوئی ہیں 
نڈر اعلی تعلیم یافتہ بے باک عورت کے حقوق پر بات کرنے والی لڑنے والی اور پھر مر جانے والی یا سچ کہوں تو مار دی جانے والی عورتیں۔۔۔
فاطمہ جناح سے لے کر بے نظیر اور فردوس عاشق اعوان سے مریم نواز شریف تک۔۔بے شمار نام بے اور بھی ہیں جنکی گنتی کروں تو گفتگو لمبی ہو جاتی ہے انکے شمار کام۔۔ یہ سب معزز خواتین ہیں سیاست سے پرے ان خواتین کا کردار مثالی رہا کچھ گھریلو خواتین سیاست میں آئیں اور اپنی صلاحیتوں سے مردوں سے آگے نکل گئیں اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ عورت مرد سے زیادہ بہترین سیاستدان ہے۔۔ عورت کو قدرت نے بے انتہا اعلی منصب پر فائز کیا وہ بیوءماں بہن بیٹی ہر رشتے میں اپنا کردار احسن طریق سے نبھاتی ہیں پر جب کچھ کرنے کی ٹھان لے تو پھر عورت کا دماغ اسکی ذہانت اور عورت کے مکر کا بہترین استعمال ہمیشہ عورت کو مرد پر سبقت دلاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ ازل سے ابد تلک چلتا رہے گا 
یہاں سیاست سے قطع نظر میں بات ایک بیٹی کے عزم کی کروں گی جس نے ایک گھریلو عورت کے لبادے سے نکل کر سیاست میں قدم رکھا اپنے باپ کے لئیے 
جدوجہد کا آغاز کیا اپنے باپ کے لئیے اس وقت جب بیٹے کچھ نہ کر سکے۔۔ اس عورت میں ایک بیٹی ڈٹ کر کھڑی ہو گئی اس نے ٹھان لی اور کون سوچ سکتا تھا کہ ایک عام عورت اپنے باپ کو عزت دلانے اسکا ڈیفینڈ کرنے کے لئیے دن رات ایک کر دے گی اسکا ذہین دماغ ایسے جال بنے گا کہ ہر دماغ والے صاحب اقتدار کو چاروں شانے چت کر دے گی۔۔ اور کہتے ہیں کہ عورت جنگ میں نہیں لڑ سکتی مگر طے ہے کہ عورت جنگ کا پلان کر سکتی ہے کب کہاں کس کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلا سکتی ہے نشانہ اسکا ہو گا اور ہاتھ کسی اور کے ہونگے ۔۔ میں بار بار کہہ رہی ہوں کہ میں سیاست سے بالکل پرے ایک بیٹی کے کردار اور اسکی جنگ کی منصوبہ بندی کی بات کر رہی ہوں ایک عورت کی بات کر رہی ہوں کہ کیسے اس عورت نے اپنے باپ کو عزت دلانے کے لئیے سب کچھ داو¿ پر لگا دیا اس نے کر کے دکھایا کہ جنگ جیتنی ہو تو پھر لشکر نہیں دیکھے جاتے میں اس بیٹی کے عزم سے متاثر ہوں جس نے مجھے قلم اٹھا کر یہ الفاظ لکھنے اور عورت کی جرات مندی کو سلام پیش کرنے کو مجبور کیا۔۔ایک عورت کی اپنے باپ کے لئیے بے انتہا محبت کو دیکھ رہی ہوں جہاں بیٹے کام نہیں آ سکتے وہاں بیٹیاں بیٹے بن جاتی ہیں باپ کا بازو بن جاتی ہیں "باپ کی آنکھیں بن جاتی ہیں۔۔ اور پھر باپ کو اسکا منصب عزت سے واپس دلاتی ہیں۔۔سلام عورت تیری جرات کلام کو ترے کام کو سلام "
میں عورت ہوں خدا نے صبر فطرت میں سمویا ہے 
تبھی تو درد کا ہر ایک چلا کاٹ سکتی ہوں 

ای پیپر دی نیشن