من کی باتیں ....محمد خالد قریشی
mkhalidqureshi3000@gmail.com
وطن عزیز میں 21 اکتوبر نئی نوید صبح لے کر طلوع ہوئی ۔ یہ درست ہے کہ نواز شریف ہمیشہ قسمت کے دھنی رہے ۔ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ اگر دیکھیں تو شاید نواز شریف واحد سیاست دان ہیں جن کو بھر پور اقتدار سے الگ اور سیاست سے دور رکھا گیا۔قید،تنہائی،جلا وطنی ،سزائیں،مقدمات اور نا اہلی کے باوجود 1983 ءسے 2023 ءاگر چالیس سالہ سیاسی سفر کا موازنہ کیا جائے تو پاکستانی سیاست ان کے گرد گھومتی ہے۔21 اکتوبر کی تقریر نواز شریف کی سیاسی سفر کی کہانی کے علاوہ پاکستان کے مسائل ،مصائب اور ان کے حق کی بات بھی کی۔اپنے دکھوں کا ذکر کرتے ہوئے سیاست کی وجہ سے لگنے والے زخم یاد کر کے دکھی ہوئے اور کہا کہ اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت پر چھوڑتا ہوں۔1999 ءکے دور اقتدار میں بھارتی وزیراعظم اٹل واجپائی کا پاکستان آنا اور مینار پاکستان پر کھڑے ہو کر کہنا کہ مضبوط اور خوشحال پاکستان بھارت کی بقاءاور سلامتی کا ضامن ہے۔اس طرح 2015 ءبھارتی انتہا پسند وزیراعظم نریندر مودی پاکستان آئے اور جاتی امراءنواز شریف کی نواسی کی شادی میں شریک ہوئے۔21 اکتوبر کو نواز شریف نے کہا کہ پاکستان کی ترقی میں روکاوٹ ہمسایوں سے لڑائی ہے۔نواز شریف نے کہا کہ میری 40 سالہ سیاست کا نچوڑ یہی ہے کہ پاکستان کے تمام آئینی اداروں اور سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔پاکستان کو نئے سفر کی ضرورت ہے،اپنی تقریر میں اشعار کا خوبصورت استعمال کیا،اپنی تقریر کے آغاز پر کہا”کہاں سے چھیڑوں فسانہ ،کہاں تمام کروں“،مرزا غالب کا شعر پڑھا
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفان کیئے ہوئے
نواز شریف کی تقریر میں کرب ،دکھ ،غم اور اپنے پیاروں کے بچھڑنے کے غم کا اظہار بھی تھا۔جیل میں تین بار وزیر اعظم رہنے والے کو ٹیلی فون کی سہولت نہ تھی مگر ان تمام غم و دکھ کے باوجود انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ انتقام لینا میرا مقصد نہیں ہے،اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑتا ہوں۔تلخ و ترش حالات کے باوجود پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے ایک نئے سفر کی بات کی”انتقام نہیں خدمت “کی بات کی،تمام آئین کے ستونوں کو اکھٹے ملک کو آگے لے کر جانا ہوگا،آج کو بچانا ہوگا۔پاکستان کی اقتصادی ترقی کی ضرورت ہے۔ 76 سالہ تاریخ میں پاکستان بد ترین حالات سے گذر رہا ہے،اقتصادی بدحالی ہے، بےروزگاری اور مہنگائی کا طوفان ہے،پڑھے لکھے نوجوان ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔بجلی،گیس ناصرف مہنگی بلکہ نایاب ہے،اگر سیاستدان مخلص ہیں تو آئینی اداروں کے ساتھ مل کر پہلے صرف ”میثاق پاکستان“کریں۔اگر تاریخ دیکھیں تو آج سے 38 سال قبل 1985 ءمیں ڈالر صرف پندرہ روپے کا تھا،2007 ءمیں 60/- روپے کا تھا۔اس میں جنرل ضیاء اور جنرل پرویز کے ادوار بھی تھے،2007 ءسے 2022 ءتک صرف 14 سال میں ڈالر 300/- تک گیا،کیوں؟،سوال تو بنتا ہے نا،میاں نواز شریف نے بجلی کے بلوں کو موازنہ بھی کیا 2017 ءمیں بل اگر 1200 تھا تو 2022 میں 28 ہزار کا ہوا، کیوں؟۔آج پاکستان کے بازاروں کو دیکھیں ویرانی چھا گئی ہے،کیوں؟۔کیا کوئی ایمانداری سے آئی پی پی بجلی پیدا کرنے والے معاہدوں کو عام کریں گے؟،کس نے اور کیوں پاکستان دشمن شرائط پر معاہدے کیے۔پاکستان میں ہرادارے کی عزت ہونی چاہئے،پاکستان اگر قائم ہے تو اللہ تعالیٰ کے کرم ،حضور کریم کی شفاعت کی وجہ سے ہے، فوج کا کردار بھی نمایاں ہے ان کی عزت ہر محب وطن پاکستانی کا فرض ہے۔میاں نواز شریف نے کہا کہ 2017 ءمیں روٹی صرف 4/- روپے کی تھی آج 20/- روپے کی ہے۔اگر صرف تمام محب وطن اسٹیک ہولڈر جو کہ آئین پاکستان اور ریاست کے ستون ہیں،صرف اس بات پر غور کریں کہ 1994 ءمیں جن بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں (آئی پی پی )نے 51 ملین انوسٹ کیا تقریباً ہزاروں گنا منافع کما چکے ہیں،کیا 1994 ءمیں بجلی پیدا کرنے کے متبادل ذرائع نہ تھے ۔ 76 سالہ تاریخ دیکھیں تو گولڈن ٹائم مارشل لاءکے ادوار میں تھا،جس میں امن ،خوشحالی،روزگار اور اقتصادی ترقی ہو گئی۔ تاریخ میں کسی ایک دور میں پانی سے بجلی پیدا کرنے والے ڈیم بنے تو جنرل ایوب دور تھا،جب ریکارڈ تعداد میں انڈسٹری لگی،مگر عوامی دور میں حکومت نے لے لی۔ایوب خان ،ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں ملک نے ترقی کی اور سیاسی قیادت بھی مہیا کی۔آج میاں نواز شریف اور ان کے ہم عصرسیاستدان جنرل ضیاء کے غیر جماعتی نظام سے آئے،آج پاکستان انتہائی نازک ترین دور سے گزر رہا ہے،طویل عرصے کے بعد نواز شریف کی پاکستان آمد اور اپنا ”بیانیہ‘پاکستان کے لئے امید سحر ہے، آج عمران خان کے سابق وزیر داخلہ اور سیاسی پیشنگوئی بیان کرنے والے شیخ رشید احمد اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے ”عام معافی“کے طلبگار ہیں ،تمام سیاستدانوں کو پاکستان کو بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
اپنوں نے وہ رنج دیے ہیں ،بیگانے یاد آتے ہیں
دیکھ کر اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں
اس نگری میں قدم قدم پہ سر کو جھکانا پڑتا ہے
اس نگری میں قدم قدم پہ بت خانے یاد آتے ہیں
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب
چاروں جانب سناٹا ہے،دیوانے یاد آتے ہیں
قصہ میاںنواز شریف کی واپسی کا....!!
من کی باتیں ....محمد خالد قریشی
mkhalidqureshi3000@gmail.com
وطن عزیز میں 21 اکتوبر نئی نوید صبح لے کر طلوع ہوئی ۔ یہ درست ہے کہ نواز شریف ہمیشہ قسمت کے دھنی رہے ۔ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ اگر دیکھیں تو شاید نواز شریف واحد سیاست دان ہیں جن کو بھر پور اقتدار سے الگ اور سیاست سے دور رکھا گیا۔قید،تنہائی،جلا وطنی ،سزائیں،مقدمات اور نا اہلی کے باوجود 1983 ءسے 2023 ءاگر چالیس سالہ سیاسی سفر کا موازنہ کیا جائے تو پاکستانی سیاست ان کے گرد گھومتی ہے۔21 اکتوبر کی تقریر نواز شریف کی سیاسی سفر کی کہانی کے علاوہ پاکستان کے مسائل ،مصائب اور ان کے حق کی بات بھی کی۔اپنے دکھوں کا ذکر کرتے ہوئے سیاست کی وجہ سے لگنے والے زخم یاد کر کے دکھی ہوئے اور کہا کہ اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت پر چھوڑتا ہوں۔1999 ءکے دور اقتدار میں بھارتی وزیراعظم اٹل واجپائی کا پاکستان آنا اور مینار پاکستان پر کھڑے ہو کر کہنا کہ مضبوط اور خوشحال پاکستان بھارت کی بقاءاور سلامتی کا ضامن ہے۔اس طرح 2015 ءبھارتی انتہا پسند وزیراعظم نریندر مودی پاکستان آئے اور جاتی امراءنواز شریف کی نواسی کی شادی میں شریک ہوئے۔21 اکتوبر کو نواز شریف نے کہا کہ پاکستان کی ترقی میں روکاوٹ ہمسایوں سے لڑائی ہے۔نواز شریف نے کہا کہ میری 40 سالہ سیاست کا نچوڑ یہی ہے کہ پاکستان کے تمام آئینی اداروں اور سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔پاکستان کو نئے سفر کی ضرورت ہے،اپنی تقریر میں اشعار کا خوبصورت استعمال کیا،اپنی تقریر کے آغاز پر کہا”کہاں سے چھیڑوں فسانہ ،کہاں تمام کروں“،مرزا غالب کا شعر پڑھا
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفان کیئے ہوئے
نواز شریف کی تقریر میں کرب ،دکھ ،غم اور اپنے پیاروں کے بچھڑنے کے غم کا اظہار بھی تھا۔جیل میں تین بار وزیر اعظم رہنے والے کو ٹیلی فون کی سہولت نہ تھی مگر ان تمام غم و دکھ کے باوجود انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ انتقام لینا میرا مقصد نہیں ہے،اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑتا ہوں۔تلخ و ترش حالات کے باوجود پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے ایک نئے سفر کی بات کی”انتقام نہیں خدمت “کی بات کی،تمام آئین کے ستونوں کو اکھٹے ملک کو آگے لے کر جانا ہوگا،آج کو بچانا ہوگا۔پاکستان کی اقتصادی ترقی کی ضرورت ہے۔ 76 سالہ تاریخ میں پاکستان بد ترین حالات سے گذر رہا ہے،اقتصادی بدحالی ہے، بےروزگاری اور مہنگائی کا طوفان ہے،پڑھے لکھے نوجوان ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔بجلی،گیس ناصرف مہنگی بلکہ نایاب ہے،اگر سیاستدان مخلص ہیں تو آئینی اداروں کے ساتھ مل کر پہلے صرف ”میثاق پاکستان“کریں۔اگر تاریخ دیکھیں تو آج سے 38 سال قبل 1985 ءمیں ڈالر صرف پندرہ روپے کا تھا،2007 ءمیں 60/- روپے کا تھا۔اس میں جنرل ضیاء اور جنرل پرویز کے ادوار بھی تھے،2007 ءسے 2022 ءتک صرف 14 سال میں ڈالر 300/- تک گیا،کیوں؟،سوال تو بنتا ہے نا،میاں نواز شریف نے بجلی کے بلوں کو موازنہ بھی کیا 2017 ءمیں بل اگر 1200 تھا تو 2022 میں 28 ہزار کا ہوا، کیوں؟۔آج پاکستان کے بازاروں کو دیکھیں ویرانی چھا گئی ہے،کیوں؟۔کیا کوئی ایمانداری سے آئی پی پی بجلی پیدا کرنے والے معاہدوں کو عام کریں گے؟،کس نے اور کیوں پاکستان دشمن شرائط پر معاہدے کیے۔پاکستان میں ہرادارے کی عزت ہونی چاہئے،پاکستان اگر قائم ہے تو اللہ تعالیٰ کے کرم ،حضور کریم کی شفاعت کی وجہ سے ہے، فوج کا کردار بھی نمایاں ہے ان کی عزت ہر محب وطن پاکستانی کا فرض ہے۔میاں نواز شریف نے کہا کہ 2017 ءمیں روٹی صرف 4/- روپے کی تھی آج 20/- روپے کی ہے۔اگر صرف تمام محب وطن اسٹیک ہولڈر جو کہ آئین پاکستان اور ریاست کے ستون ہیں،صرف اس بات پر غور کریں کہ 1994 ءمیں جن بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں (آئی پی پی )نے 51 ملین انوسٹ کیا تقریباً ہزاروں گنا منافع کما چکے ہیں،کیا 1994 ءمیں بجلی پیدا کرنے کے متبادل ذرائع نہ تھے ۔ 76 سالہ تاریخ دیکھیں تو گولڈن ٹائم مارشل لاءکے ادوار میں تھا،جس میں امن ،خوشحالی،روزگار اور اقتصادی ترقی ہو گئی۔ تاریخ میں کسی ایک دور میں پانی سے بجلی پیدا کرنے والے ڈیم بنے تو جنرل ایوب دور تھا،جب ریکارڈ تعداد میں انڈسٹری لگی،مگر عوامی دور میں حکومت نے لے لی۔ایوب خان ،ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں ملک نے ترقی کی اور سیاسی قیادت بھی مہیا کی۔آج میاں نواز شریف اور ان کے ہم عصرسیاستدان جنرل ضیاء کے غیر جماعتی نظام سے آئے،آج پاکستان انتہائی نازک ترین دور سے گزر رہا ہے،طویل عرصے کے بعد نواز شریف کی پاکستان آمد اور اپنا ”بیانیہ‘پاکستان کے لئے امید سحر ہے، آج عمران خان کے سابق وزیر داخلہ اور سیاسی پیشنگوئی بیان کرنے والے شیخ رشید احمد اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے ”عام معافی“کے طلبگار ہیں ،تمام سیاستدانوں کو پاکستان کو بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
اپنوں نے وہ رنج دیے ہیں ،بیگانے یاد آتے ہیں
دیکھ کر اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں
اس نگری میں قدم قدم پہ سر کو جھکانا پڑتا ہے
اس نگری میں قدم قدم پہ بت خانے یاد آتے ہیں
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب
چاروں جانب سناٹا ہے،دیوانے یاد آتے ہیں