تحریر:غلام شبیر عاصم
تکبر و تکدر سے نکلنا ہوگا
اگرکسی جگہ سے ہڈی ٹوٹ جائے تو کوئی جراح یا ہڈی جوڑ پہلوان اس ہڈی کے سرے آپس میں ملانے کی کوشش کرتا ہے،تاکہ مریض سکون پاسکے۔مگر جب تک ہڈی اپنے ٹھیک ٹھکانے پر نہیں آجاتی مریض تکلیف سے دوچار ہی رہتا ہے۔تکلیف کی وجہ سے بعض اوقات تو مریض کو رات بھر تڑپنا پڑتا ہے۔معاشرہ کی موجودہ صورت حال کو جب غائر نظری سے دیکھتے ہیں تو ہماری مثال بھی کسی ہڈی ٹ±وٹے مریض والی محسوس ہوتی ہے۔لگتا ہے ہماری بھی کوئی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اور وہ ج±ڑ نہیں رہی یا اپنی اصل جگہ پر نہیں آ رہی۔حالات اس قدر اضطراب کا شکار ہوچکے ہیں کہ تقریبا?? ہر دوسرے تیسرے انسان کے ماتھے پر شکن اور اضطراب کی لکیر واضح نظر آتی ہے۔ اگر کسی انسان نے ٹوٹی ہوئی ہڈی کے جوڑ پر جھوٹی سی برداشت اور ہنسی کی پٹی لپیٹ بھی رکھی ہے تو اس پٹی کے اندر گویا کوئی ٹِیس یا درد ضرور موجود ہے،جس کی وجہ سے انسان کسی لمحہ بھی درد سے بے حال ہوسکتا ہے۔ ہم بھی ٹوٹی ہوئی کسی ہڈی کی طرح اپنے اصل مقام یا پگڈنڈی اور جادہ سے اترے ہوئے ہیں،ہر انسان(مسلمان) کے اندر کوئی نادیدہ سا دکھ ہے جو اس کے ماتھے پر تیوری,بے بسی اور مایوسی کی شکل میں عیاں ہورہا ہے۔جس کسی کو دیکھیں پریشان نظر آتا ہے۔گویا کوئی ایسا راستہ ہے جس سے اتر کر ہم پریشان ہیں۔کوئی کسی کو دکھ سنانے سے خائف ہے اور کوئی سننے سے کتراتا ہے۔لوگ سینے میں کرب اور الام لئے سانسوں کے رسن میں گرفتہ اور مصلوب ہوئے خاموش زباں ہیں۔ہم اگر آج ہی فطری اور اخلاقی قوانین کے تضادات سے باہر نکل آئیں تو ہماری زندگی امن و آشتی،لطف و سرور اور کیف و مستی کی بستی میں اتر سکتی ہے۔دنیا و مافیہا پر نظر دوڑائیں تو ایک ہی ایسا نظریہ،نظام اور فطری قانون ہمیں ملے گا جسے ایک ہی لفظ میں بیان کریں تو وہ ہے"اسلام" جسے دینِ فطرت بھی کہا جاتا ہے۔آج ہمارے تمام مسائل،تکالیف اور عذاب نما کڑے امتحانات کی وجہ صرف دینِ اسلام اور اسوہ محمد سے دوری ہے۔یہ کائنات ایک قانون کے تحت وجود میں آئی ہے اور اس نظام کا رواں دواں رہنا بھی انہی بنیادی اصولوں کا متقاضی ہے۔فطرت کے ساتھ جوڑے گئے اخلاقی و معاشرتی قوانین سے ہٹ جانا اور متضادات کو اپنا کر اس نظام میں مداخلت کرنا ہی دراصل معاشرت کے اس گھومتے ہویے پہیہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔آج ہمارے روئیے،رسم و رواج،اٹھنا بیٹھنا،چلنا پھرنا کھانا پینا،میل ملاپ اللہ پاک کے وضح کردہ ضابطہ حیات کے منافی ہوچکا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ذہنی سکون اور دلوں کا قرار اللہ پاک کے ذکر کے علاوہ دولت اور مادی آسائشوں میں نہیں ہے،اگرہم سکون کو دولت کے ساتھ جوڑ بھی لیں تو پھر اس طرح ممکن ہے کہ سکون دولت کے صحیح حصول اور جائز تصرف میں پنہاں ہے۔دولت کو جب جائز طریقہ سے ہٹ کر حاصل یا استعمال کیا جاتا ہے تو روحانی لطف و سرور ختم ہو جاتا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ اپنی راحتِ قلب،روح کی تسکین اور زندگی کے لمحات کو حقیقی مسرتوں سے ہمکنار کرنے کے لئے بناوٹی،وقتی اور سطحی خوشیوں سے پیدا ہونے والے تکبر و تکدر سے نکل کر پستی سے بلندی کی طرف عازم سفر ہوجائیں تاکہ"مقامِ محمود"کے وارث ہمارے طرزِ زندگی سے خوش ہوں اور ہمیں دنیا و آخرت کی مسرتیں اور راحتیں حاصل ہوجائیں۔