پاکستان کے سینئر سیاستدان میاں نواز شریف بقول مریم نواز شریف” آن بان شان کے ساتھ“ پاکستان واپس پہنچ گئے ہیں- تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت نے ”عدالتی مفرور“ میاں نواز شریف کو وی وی آئی پی پروٹوکول دیا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ پاکستان کے چوتھی بار وزیر اعظم بنیں گے- میاں صاحب چاہتے تو وہ اپنے وفادار بھائی میاں شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد بھی پاکستان آسکتے تھے۔ ان کی تجربہ کار لیگل ٹیم ان کے لیے مقدمات میں ضمانت حاصل کر سکتی تھی- مگر وہ جانتے تھے کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے ایسے متنازعہ اور عوام دشمن سخت فیصلے کرنے تھے جن کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہونا تھا لہٰذا وہ اپنے آپ کو سابقہ حکومت کے منفی اثرات سے الگ تھلگ رکھنا چاہتے تھے- دوسری وجہ یہ ہے کہ عمران خان جیل سے باہر تھے اور پاکستان کے عوام نے ان کو لیڈر سے زیادہ ”دیوتا“ بنا رکھا تھا- تیسری وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے میاں صاحب کو ”ریلیف“ کی توقع نہیں تھی- میاں نواز شریف نے مناسب وقت پر پاکستان میں سیف اور وی وی آئی پی لینڈنگ کی ہے- 9 مئی کے افسوسناک واقعات کے بعد انکے لیے پاکستان کا سیاسی ماحول سازگار بنا دیا گیا ہے- تازہ ترین سروے کے مطابق قیدی عمران خان آج بھی پاکستان کا مقبول ترین لیڈر ہے- پاکستان کی تاریخ میں ایک حد سے زیادہ مقبول ہونا بھی جرم ہوتا ہے-
1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو مقبول ترین سیاست دان تھے عالم اسلام اور جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کے لیے خطرہ بنتے جارہے تھے لہٰذاان کو اندورنی اور بیرونی گٹھ جوڑ کرکے سیاسی منظر سے ہٹا دیا گیا- امریکہ نواز جرنیل ضیاءالحق کو اقتدار سونپا گیا تاکہ وہ افغانستان میں روس کے خلاف امریکی جنگ کی قیادت کر سکے- پاکستان کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے محب الوطن پاکستانی جانتے ہیں کہ پاکستان آج بھی ایک کالونی ہے جس کے وسائل کو گورے اور کالے انگریز مل کر لوٹ رہے ہیں- پاکستان کی آزادی کی تکمیل ابھی باقی ہے جو اس وقت مکمل ہوگی جب تک نوجوان انقلابی جماعت تشکیل دے کر سامراجی جاگیر دارانہ سرمایہ دارانہ نظام کو نیست و نابود نہیں کر دیتے-عمران خان نے سیاسی بصیرت اور تجربے کی کمی کی وجہ سے فاش غلطیاں کی ہیں- اس کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ وہ ایسے موڑ پر روس کے دورے پر چلے گئے جب امریکہ افغانستان سے نکلنے کے بعد اگلی دہائی کی منصوبہ بندی کر رہا تھا کہ اس نے چین کے تشویشناک حد تک بڑھتے ہوئے عالمی اثرو رسوخ کو کیسے روکنا ہے- کاش اگر عمران خان بہتر سیاسی اور سفارتی مہارت کا مظاہرہ کر سکتے تو آج خود ان کو ان کی پارٹی کو اور عوام کو اذیت ناک مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا - پاکستان کا سیاسی کلچر چوں کہ مفاد پرستی اور موقع پرستی پر مبنی ہے اس لیے سیاسی سرمایہ کار ہوا کا رخ دیکھ کر سرمایہ کاری کرتے ہیں-
میاں نواز شریف کا مینار پاکستان کا جلسہ کامیاب رہا جس میں مسلم لیگ نون کے سرمایہ کار الیکٹیبلز نے بھاری سرمایہ کاری کی- مینار پاکستان کے جلسے میں لاہور کی نمائندگی کم اور پاکستان کے مختلف علاقوں کی نمائندگی زیادہ تھی- مسلم لیگ ن کے پرانے کارکن شریف خاندان کی غیر معمولی بالا دستی کی وجہ سے ناراض ہیں- مسلم لیگ نون یہ تاثر پیدا کرنے میں کامیاب رہی کہ میاں نواز شریف آج بھی پاکستان کے پاپولر لیڈر ہیں - میاں نواز شریف کا خطاب عوامی تھا - ان کا سارا زور اس بات پر رہا کہ ان کی خدمات کو 2017ءسے جانچا جائے جب ان کو اقتدار سے نکالا گیا - عوام گزشتہ ڈیڑھ سال کو بھول جائیں جس کے دوران عوام کو زندگی کے پل صراط سے گزرنا پڑا اور جس کی اذیت کا سلسلہ آج بھی جاری ہے- میاں نواز شریف اپنے خطاب میں قوم کو ٹھوس روڈ میپ دینے سے قاصر رہے- حیران کن طور پر انہوں نے اپنے خطاب میں الیکشن اور موذی کرپشن کا ذکر تک نہ کیا - ان کی یہ بات دانشمندانہ تھی کہ ان کی چالیس سالہ سیاست کا نچوڑ یہ ہے کہ آئینی اداروں، سیاسی جماعتوں اور ریاستی سٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے اور مفاہمت کے بغیر پاکستان کے چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا - کاش میاں صاحب اس سلسلے میں عملی طور پر ثابت کر سکیں کہ انہوں نے ملکی سیاست کا جو نتیجہ نکالا ہے وہ ان کے دل اور ضمیر کی آواز ہے-
پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی حقیقت ہے اس کو سیاست کرنے کے مساوی مواقع ملنے چاہئیں- 9 مئی کے واقعات میں جو لوگ ملوث ہیں ان کے خلاف قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے اور مقبول عوامی جماعت کے خلاف کریک ڈاﺅن ختم ہونا چاہیے- کیا میاں نواز شریف عوام کے اس جمہوری حق کے لیے آواز اٹھائیں گے- پاکستان کے عوام کو بیدار اور باشعور ہونا پڑے گا۔ وہ لیڈروں کے خطابات اور بیانات کے فریب میں آنے کی بجائے ان کے عملی اقدامات اور فیصلوں کی بنیاد پر ان کو جانچیں اور پرکھیں- میاں نواز شریف کی واپسی کے بعد سیاست کا ماحول گرم ہو گیا ہے - ابھی پارٹی شروع ہوئی ہے مستقبل کی سیاست کا منظر نامہ ایک ماہ کے اندر مزید واضح ہو جائے گا- مسلم لیگ ن کے استقبالی پر جوش ترانے میں”امید اور یقین“ کو مرکزی تھیم بنایا گیا ہے- میاں نواز شریف نے اپنے خطاب میں خاندانی مصائب بیان کرنے کے لیے غالب کے مشکل اشعار کا انتخاب کیا - غالب کے دو عام فہم شعر یہ بھی ہیں-
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید