سپریم کورٹ کا عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات نہ چلائے جانے سے متعلق فیصلہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے اس تاریخی فیصلے میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق 59(4) کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 9 اور 10 مئی کے تمام ملزموں پر عام عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جس پانچ رکنی لارجر بینچ نے اس مقدمے کی سماعت کی اس نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں منظور کرتے ہوئے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو متفقہ طور پر کالعدم قرار دیا تاہم آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی ون کو آئین سے متصادم چار فاضل ججوں نے قرار دیا جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس پر اپنی رائے محفوظ رکھی۔ بینچ میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی شامل تھے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کسی شہری کا فوجی عدالت میں ٹرائل شروع ہوگیا ہے تو وہ بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔9 اور 10 مئی کے واقعات کی روشنی میں گرفتار 103افراد جن کی فہرست عدالت میں پیش کی گئی تھی سپریم کورٹ نے ان کا ٹرائل عام فوجداری عدالتوں میں چلانے کا حکم دیا ہے۔ آرمی ایکٹ کی وہ شقیں جو عدالت کے سامنے پیش کی گئی تھیں کہ ان کے تحت سویلین کا ٹرائل ہوسکتا ہے، عدالت نے ان شقوں کو بھی آئین سے متصادم قرار دیا ہے۔ یہ فیصلہ کسی ایک خاص مقدمے کے حوالے ہی سے اہمیت و افادیت کا حامل نہیں ہے بلکہ اس سے عمومی طور پر ملک کے نظامِ عدل کو تقویت ملے گی اور جمہوری اداروں کو استحکام حاصل ہوگا۔ اس تناظر میں تمام جمہوریت پسند قوتوں کو اس فیصلے کو نہ صرف قبول کرنا چاہیے بلکہ عوام کو اس بات سے متعلق آگاہی دینی چاہیے کہ طویل مدتی تناظر میں پاکستان کو بطور ریاست اس فیصلے سے کیا فوائد حاصل ہوں گے۔
9 مئی کو پیش آنے والے واقعات میں ملوث عام شہریوں پر جب فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا معاملہ زیر بحث آیا تو قومی اسمبلی نے اس کے حق میں ایک قرارداد منظور کی۔ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی عدالت میں اس معاملے کے خلاف اپیلیں تو دائر کی گئیں لیکن ان کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہوگئی۔ بالآخر سوموار کو عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے اس معاملے سے متعلق اپنا اہم ترین فیصلہ سنایا جس کے ذریعے ایک طرف تو عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے پر پابندی لگا دی گئی ہے اور دوسری جانب قومی اسمبلی کی مذکورہ قرارداد کو بھی مسترد کردیا گیا ہے۔ اس فیصلے کو کسی ایک جماعت یا گروہ کو ملنے والی رعایت کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ اس سے ملک میں جمہوریت کے فروغ عدل گستری کے استحکام اور سول بالادستی کے حصول کے لیے راستہ ہموار ہو گا۔
سوموار کو جب عدالت عظمیٰ میں اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو وکیل خواجہ احمد حسین نے عدالت کو بتایا کہ کچھ نئی درخواستیں دائر کی گئی ہیں جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آخری آرڈر کے مطابق اٹارنی جنرل کے دلائل چل رہے تھے، پہلے اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہو جائیں پھر طریقہ کار کو دیکھیں گے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ خصوصی عدالتوں میں ٹرائل اس کیس کے فیصلے سے پہلے ہی شروع کر دیا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو دلائل مکمل کرنے دیں پھر سب کو سنیں گے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ 9مئی کے ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل سول عدالتوں کی طرز پر ہی کیا جائے گا، شہادتیں ریکارڈ کی جائیں گی اور فیصلے میں تفصیلی وجوہ بھی لکھی جائیں گی۔ آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تمام تقاضے پورے ہوں گے، ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں بھی میں اپیلیں آئیں گی، ممنوعہ علاقوں اور عمارات پر حملہ بھی فوجی عدالتوں میں جا سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل اور دیگر وکلاءکے تمام دلائل سننے کے بعد عدالت نے جو فیصلہ دیا وہ آئین کی روح کی ترجمانی کرتا ہے۔ حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پانچ رکنی لارجر بینچ کے مذکورہ فیصلے کے خلاف فل کورٹ میں اپیل کرسکتی ہے، اور اس بات کا قومی امکان دکھائی دے رہا ہے کہ حکومت اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی لیکن ایسا کرنے سے حکومت آئین کے تحت وجود میں آنے والے سول اداروں پر ایک گونہ عدم اعتماد کا اظہار کرے گی اور اس سے جمہوریت کی بالادستی کے راستے میں رکاوٹیں بھی کھڑی ہوں گی۔ فوجی عدالتوں کو جن خصوصی مقاصد کے تحت وجود میں لایا جاتا ہے ان کے دائرہ کار کو وہیں تک محدود رکھا جائے تو اس سے فوج کے وقار میں بھی اضافہ ہوگا اور سول اداروں کے اختیارات بھی متاثر نہیں ہوں گے۔ مزید یہ کہ کسی فریق کو یہ کہنے کا موقع بھی نہیں ملے گا کہ انصاف تک رسائی کے حق کو مجروح کیا گیا ہے۔
پانچ رکنی لارجر بینچ نے اپنے مذکورہ فیصلے سے صرف سول عدالتوں ہی نہیں بلکہ پورے جمہوری نظام کی اہمیت واضح کی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارا نظامِ عدل ایسے مسائل کا شکار ہے جن کی وجہ سے عام آدمی اس نظام سے غیر مطمئن دکھائی دیتا ہے اور اہم بین الاقوامی اداروں کی طرف سے جو رینکنگ وغیرہ تیار کی جاتی ہے اس میں بھی ہمارے ملک کے نظامِ عدل کو کمزور بتایا جاتا ہے۔ عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات یقینا نہیں چلنے چاہئیں لیکن سول عدالتوں کو بھی اس قابل بنایا جانا چاہیے کہ عام شہری اس اعتماد کے ساتھ ان کی جانب رجوع کریں کہ انھیں وہاں سے واقعی انصاف ملے گا اور اس کے حصول کے لیے انھیں، عوامی مقولے کے مطابق، قارون کے خزانے، خضر کی عمر اور ایوبؑ کے صبر کی ضرورت نہیں پیش آئے گی!