ویسے تو کھیل کود اور شرارتوں میں بچوں کا کوئی ثانی نہیں لیکن بعض اوقات یہ شرارتیں اور کھیل وبال جان بھی بن جاتی ہیں، والدین کو اپنے ایسے بچوں پر کڑی نگاہ رکھنی چاہیے۔
کچھ ایسا ہی ایک ویڈیو میں دیکھا۔ یہ خوفناک واقعہ بھارت میں ہوا جہاں تقریباً تین سالہ بچہ اپنے بھائی کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ وہ شرارت کرتے ہوئے واشنگ مشین میں جاکر بیٹھ گیا اور پھر دوسرے بچے نے بٹن گھما کر اسے چلادیا۔سوشل میڈیا پر یہ خوفناک ویڈیو وائرل ہو گئی، اس ویڈیو کو دیکھ کر لوگ خوف اور حیرت میں مبتلا تھے۔
اس کے علاوہ ایک سی سی ٹی وی ویڈیو بھی نظروں سے گزری جس میں گھر کا صحن نظر آرہا تھا۔ دکھتا کیا ہے کہ ایک پانچ یا چھ سال کی عمر کا بچہ سٹول پر چڑھ کر دیوار سے لٹکتی رسی کو اپنی گردن کے ارد گرد باندھ کر پیروں تلے سٹول گرا دیتا ہے۔ یہ منظر خوف سے عبارت تھے۔ بچہ تڑپ تڑپ کر آوازیں لگانے لگا تو ایک بچی جو دکھنے میں لگ بھگ تین سال کی لگ رہی تھی حیران ہو کر مچلتے بچے کو پل بھر کے لیے دیکھنے لگی۔ شاید بچی کو کچھ لگا کہ گڑبڑ ہے تو بھاگی اور گھر کے اندر آوازیں لگانے لگی۔ اس پر ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور بے دم ہوتے بچے کو تھام لیا۔
اگر ذرا سی مزید تا خیر ہوتی تو یقنا بچہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ میں یہ نہیں کہوں گی کہ وہ بچہ کسی سنجیدہ نیت سے لٹکا تھا لیکن اس کے فعل سے معلوم ہوا کہ بچہ بہت شرارتی تھا اور اُس نے یہ منظر کسی ڈرامے یا فلم میں دیکھا ہوگا۔ بلا کے شرارتی بچے اکثر ایڈونچر کو پسند کرتے ہیں اور شرارت کے نام پر ایسا ایسا کارنامہ انجام دیتے ہیں کہ انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جائیں۔ اس بچے نے بھی اس منظر کو جہاں بھی دیکھا اسے Admire کیا۔
بچے کو سنگینی کااندازا نہ تھا ۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ بچوں کو ٹی وی یا موبائل پر ایسے مناظر سے دور رکھیں جسے دیکھنے کے بعد وہ ان پر عمل کرنے کا سوچے۔
اوپر بتائے گئے دونوں واقعات میں والدین کی لاپرواہی غالب ہے۔ بچہ کسی طبیعت کا مالک ہے یہ والدین سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ شرارتی بچوں کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ ذرا سا نظروں سے اوجھل ہونے پر کوئی نہ کوئی نقصان کرنا ان کے لیے فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ شرارتی بچے بلا کی ذہانت رکھتے ہیں البتہ ایسے بچوں پر کڑی نظر رکھیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ والدین کی بچوں پر سے توجہ ہٹانے کی ایک بڑی وجہ موبائل بھی ہے۔ اکثر مائیں گھر کا کام کاج کر کے تھک جانے کے بعد جب سکون سے بیٹھتی ہیں تو ان کے ہاتھ میں موبائل لازمی ہوتا ہے جسے دیکھ کر وہ خود کو تھکاوٹ سے آزاد محسوس کرتی ہیں۔ لیکن یہاں ہوتا کچھ یوں ہے کہ چونکہ تما م تر توجہ موبائل لے لیتا ہے اور آپ پورے انہماک کیساتھ، دنیا اور اس کی ہر شے سے ماوراءہو کر موبائل میں ایسی غرق ہوجاتی ہیں کہ بچوں کی بھی خبر نہیں رہتی۔ ایسے صورتحال سے بچے فائدہ اٹھاتے ہیں اور کوئی نہ کوئی ایسی شرارت ضرور کرتے ہیں جس کے بعد ایک دم جب ماں کے حواس دنیا میں آتے ہیں تو وہ یک دم بچوں پر چلاّ اٹھتی ہے۔ یہاں قصور بچوں کا نہیں ہے آپ کا ہے۔
میرے جاننے والوں میں ایسا ہی ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ تقریبا دو سال کا بچہ جب نہانے لگتا تو ماں سے ضد کرتا کہ خود نہانا ہے۔ایک دن بچے نے خود نہانے کی ضد کی تو ماں نے بچے کو واش روم بھیجا اور موبائل استعمال کرنے لگی۔ ماں کے مطابق ابھی پانچ منٹ گزرے تھے کہ واش جانے پر اس نے بچے کو پانی سے بھری بالٹی کے اندر پایا۔ اس حادثے میں بچے کی جان چلی گئی۔
لہذا اگر ہم بچوں کے لیے موبائل استعمال کے منفی اثرات بیان کرتے ہیں تو والدین کے لیے بھی ہر وقت موبائل کیساتھ مصروف رہنے پر بچوں کو لاحق خطرات سے بھی آگاہ کرنا چاہیے۔ موبائل استعمال کریں لیکن اس کا ایک وقت متعین کر دیں ، کوشش کریں کہ بچوں کے سامنے یہ استعمال ہر گز نہ ہو۔ تاکہ تما م تر توجہ صرف بچوں کی ہرکات و سکنات پر مرکوز رہے۔