یہ شہر طلسمات ہے کچھ کہہ نہیں سکتے

آواز خلق 
فاطمہ ردا غوری 
روایت ہے کہ ایک بادشاہ سلامت بے حد بے چین و متذبذب تھے کیونکہ وہ اپنی مخالف سلطنت کی رعایا کے درمیان کسی بھی صورت افراتفری اور انتشار پھیلانے میں ناکام رہتے تھے جب کوئی بھی تجویز یا تدبیر کام نہ آئی تو بادشاہ سلامت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انہوں نے اپنے دبیر خاص کو فقط اسی کام پر مامور کر دیا کہ مخالفین کی رعایا کی ایسی کوئی خامی تلاش کی جائے جس کی بنا پر اس سلطنت میں غم و غصہ اور افراتفری کی کیفیت پھیلائی جا سکے کیونکہ بادشاہ سلامت خوب جانتے تھے کہ کسی بھی سلطنت کی تباہی کا آغاز اسی وقت شروع ہوتا ہے جب اسکے باسی گروہوں میں بٹ جائیں ، انتشار کا شکار ہو جائیں اور خود ہی اپنے لئے باعث نقصان ثابت ہونے لگیں !!!
دبیر کئی ماہ مسلسل کوشاں رہا سرتوڑ کوشیں کرتا رہا لیکن وہاں کی رعایا کو منتشر کرنے میں ناکام رہا آخر طویل عرصہ کی جانچ پڑتال کے بعد دبیر کے ہاتھ وہاں کے لوگوں کی ایک ایسی خامی لگی جس سے بآسانی اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہوا جا سکتا تھا اس نے اپنے بادشاہ سلامت کے حضور پیش ہو کر یہ خوشخبری سنائی کہ وہ ایسی خامی تلاش کر آیا ہے جس کے بل بوتے پر وہاں ہلکی سے چنگاڑی سے آگ بھڑک اٹھے گی بادشاہ سلامت کے استفسار پر دبیر نے یہ عقدہ کچھ اس طرح کھولا کہ وہاں کے لوگ نفسیاتی طور پر مضبوط نہیں ہیں اگر انہیں ذہنی و جذباتی سطح پر مجروح کیا جائے تو وہ فہم و فراست سے عاری ہو جاتے ہیں اور عقل ،صبرو تحمل سب کھو بیٹھتے ہیں ۔۔۔مزید یہ کہ وہاں کے لوگوں میں خلوص کی زیادتی پائی جاتی ہے اس معاملے میں یہ عقل کو پیچھے چھوڑ کر فقط جذبات کی تسکین چاہنے لگتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ خدا نے انہیں عقل کی جگہ بھی خلوص دے رکھا ہے 
بس پھر کیا تھے ؟ اس خامی کے متعلق معلوم ہونا ہی تھا کہ بادشاہ سلامت نے اس سلطنت میں انتشار پھیلانے کے لئے حیلے بہانوں سے وہاں کی رعایا کوذہنی اور جذباتی طور پر مجروح کرنے کا آغاز کر دیا ور اس جذباتی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں وہاں کے لوگ مشتعل ہو نے لگے وہ نقصان جو بادشاہ سلامت کوکرنا مقصودتھا وہ رعایا غم وغصے اورجذبات کے بہاﺅ میں خود ہی کرنے لگی اور بادشاہ سلامت کو بیٹھے بٹھائے فقظ دماغوں کے ساتھ کھیل کر مطلوبہ نتائج حاصل ہونے لگے !!!
کچھ یہی عالم ملک پاکستان کا بھی ہے ہمارے ملک دشمن عناصر بھی جان چکے ہیں کہ پاکستانی عوام کو قابو میں کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ انہیں ذہنی طور پر مجروح کر دیا جائے انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ ہم من حیث القوم ایسے بے وقوف ہیں جنہیں اللہ تعالی نے عقل کی جگہ بھی خلوص دے رکھا ہے ہمیں جذباتی کر کے ہم سے کوئی بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور جذبات کی آ ڑ میں ہم اپناہی نقصان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے یہاںافسوس ہے تو صرف اتنا کہ ہمارے اپنے ہی ہاتھوں ہمیں نقصان پہنچانے والے سازشی عناصر کسی دوسرے ملک یا سلطنت سے منسلک نہیں ہیں بکہ ہمارے آس پاس ہی موجود ہیں ، ہمیں جن سے خطرہ ہے وہ ہماری اپنی ہی صفوں میں موجود میں ہمارے اپنے ہی ہمیں قعر مذلت میں دھکیلنے کے کار خیر میں ملوث ہیں !!!
یہ شہر طلسمات ہے کچھ کہہ نہیں سکتے 
پہلو میں کھڑا شخص فرشتہ ہے کہ بلا ہے
ایک بیٹی کے ساتھ ذیادتی کا مبینہ واقعہ سامنے آیابلکہ سامنے” لایا گیا “کسی بھی قسم کی ایف آئی آر ، کوئی بیان کوئی ثبوت کچھ بھی سامنے نہیں آسکا لیکن ہمیں ایسا اشتعال دلایا گیا کہ ہم اپنی ہی سرزمین کو تہس نہس کرنے نکل کھڑے ہوئے ریاست کے تمام نظام مفلوج کر دیے، کارہائے زندگی روک دیے ریاست ٍ جسے ہم اپنی ماں کہتے ہیں اسی کو کہیں کا نہیں چھوڑا اپنی ماں کو زخموں سے اس قدر چور کر دیاکہ اس کے تمام اعضاءکراہنے لگے تمام تر تحقیقات کے باوجود بچی کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی سامنے نہیں آئی لیکن ہم کیا کریں ؟ ہمیں حقائق نہیں چاہئیں ۔۔۔ہمیں ثبوت نہیں چاہئیے ۔۔ہمارے لئے وہ ویڈیوز بہت ہیں جو سوشل میڈیا پر دیکھ کر ہماری روح کانپ اٹھتی ہے ، ہمارے لئے وہ ذہنی طور پر ہمیں توڑ دینے والے
 طنز یہ پوسٹس بہت ہیں جو روز سینکڑوں کی تعداد میں سوشل میڈیا کی زینت بنتی ہیں ،ہمارے لئے مبینہ متاثرہ بچی کی وہ ہنستی کھیلتی پرانی ٹک ٹاک ویڈیوز کافی ہیں جنہیں دیکھ کر ہم خون کے آنسو روتے ہیں کہ ایک ہنستی مسکراتی بچی کے ساتھ کیا ہو گیا ؟؟ 
لیکن اس بچی کے ساتھ آخر کیا ہو گیا ؟ جواب تا دم تحریر ندارد !ہمیں سوشل میڈیا پر فساد پھیلا کر ذہنی طور پر اتنا مجروح کر دیا گیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ہر قسم کے آئین وقانون سے ماوراءسمجھتے ہوئے بس نکل کھڑے ہوئے ہیں اس سوچ سے درکنار کہ آخر یہ سب کچھ کر کے ہم نقصان کس کا کر رہے ہیں ؟ اپنی ہی املاک کو نقصان ہینچا کر اپنے ہی نظام کو مفلوج کر کے اپنے آنے والے مستقبل کو ، نوجوان نسل کو جیلوں کی زینت بنا کر آخر ہم کس معاشرے کو سدھارنے نکلے ہیں ؟ یہ سدھار پیدا کرنے کی کوش ہے یا بگاڑ پیدا کرنے کی ؟ سمجھ سے باہر ہے !
یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ ایک پینٹنگ کو اس عبارت کے ساتھ چوک میں لٹکا دیا گیا کہ”براہ کرم اس پینٹنگ میں جہاں جہاں غلطی ہے وہاں نقطہ لگا کر غلطیوں کی نشاندہی کر دیجئے “ اگلے دن اس پینٹنگ پر عوام کی جانب سے جابجا غلطی کی نشاندہی کے طور پر اسقدر نقطے لگائے گئے کہ اصل تصویر کا چہرہ مسخ ہو کر رہ گیا ۔۔۔بعدازاں ایسی ہی پینٹنگ کو دوبارہ چوک میں ایک مختلف عبارت کے ساتھ لٹکایا گیا ” براہ کرم اس پینٹنگ میں جہاں جہاں غلطی ہے اسکی اصلاح فرما دیجئے“ کہتے ہیں کہ اگلے دن وہ پینٹنگ ایکدم صاف شفاف حا لت میںموجود تھی اور کسی نے بھی آگے بڑھ کر اصلاح کی جرات نہیں کی تھی !!!
ہماری حالت بھی ان دنوں کچھ ایسی ہی ہے اسلئے درخواست ہی کی جا سکتی ہے کہ براہ کرم محض بھونڈے اور اوچھے ہتھکنڈوں کے ساتھ غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے حقائق کو مسخ مت کریں ۔۔۔ کچھ کرنا ہی مقصود ہے تو بہتر اور مناسب طریقے سے حقیقت پسندی اور امن و امان کے ساتھ اصلاح کی کوشش کیجئے 
باقی رہی بات سچ اور جھوٹ کے خلاصے کی۔۔ تو اس معاملے میں ہم بدنصیب دونوں صورتوں میں ہی شرمندگی اور ذلت کا شکار ہونے والے ہیں دونوں صورتوں میں نقصان ہمارا ہی ہے اگر یہ مبینہ واقعہ کوئی ثبوت مل جانے کی صورت کبھی سچ ثابت ہو گیا تو بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسیوں کے لئے باعث شرم ہو گا ۔۔ اور اگر یہ مبینہ واقعہ کسی طاغوتی قوت کے ذاتی مفادات پر مبنی گھناﺅنی سازش ثابت ہوا توبھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسیوں کے لئے بحیثت مسلمان ایک بیٹی کی عزت کو محض سطحی مفادات کے لئے سر عام تار تار کر دینا باعث شرم ہی ہو گا !!!

ای پیپر دی نیشن