26ویں ترمیم اورخطرناک سانپ 

پس پردہ …حامدحبیب 

20 اور 21 اکتوبر 2024 کی تاریخ ساز درمیانی شب عوام کی اکثریت سو رہی تھی پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا میدان سیاست پاور گیم کے کھیلاڑیوں اور ان کے کوچ بہت متحرک رہے۔ آئین پاکستان میں 26 ویں ترمیم کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پہلے ہاوس آف فیڈریش سینیٹ اور اس کے بعد قومی اسمبلی نے بھی دوتہائی مطلوبہ اکثریت سے منظور کر لی ہے۔ شب بھر پارلیمانی کاروائی کے دوران سینیٹ میں 65 سینیٹر نے حمایت صرف 4 نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔قومی اسمبلی میں 224 کی بجاے 225 اراکین نے حمایت اور صرف 12 نے مخالفت کی۔ تحریک انصاف کے کچھ اراکین نے بائیکاٹ بھی کیا۔ دونوں ایوانوںسے 26 ویں آئینی ترامیم کی منظوری کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے اس کی ایڈوائس ایوان صدر کو بھی بھجوا دی۔ اگلے روزصبح ہی صدر مملکت آصف علی زرداری نے اس ایڈوائس پر دستخط بھی کر دیئے ہیں۔ اس کا باضابطہ گزٹ نوٹیفکشن جاری ہونے کے بعد اب26 ویں ترمیم آئین پاکستان کا حصہ بھی بن چکی ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ کوئی مثالی نہیں ہے۔جو کنٹرول انداز سیاست یہاں چل رہا ہے۔ اس میں جو دیکھائی د ے رہا ہوتا ہے وہ ویسا نہیں ہوتا لیکن پس منظر میں حقیقی صورتحال وقت گزرنے کے بعد نکلتی کچھ اور ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا عملی نتیجہ کیا آتا ہے۔ بدگمانی کو اچھا تو نہیں سمجھتا اس لئے دعا ،خواہش یہ ہی ہے اللہ اس کے نتیجے میں ملک قوم کے لئے خیر وبھلائی ترقی خوشحالی کی قومی اتفاق کی نئی راہیں کھول دے۔قوم کو اس کے نتیجے میں مزید کچھ بھگتنا نہ پڑے۔ اس میں تو کوئی دوسری راے نہیں کہ پاکستان میں عدالتی نظام انصاف پآرٹی سیاست میں لتھڑی ہوئی ججز کی تقسیم سے پیدا ہونے والے حالات میں اصلاحات ، بڑی تبدیلی کی ضرورت تو تھی۔ اپنا کام عوام کو سستا جلد انصاف فراہم کرنے کی بجاے سیاسی جماعتوں کو اقتدار سے ھٹانے اور من پسند لوگوں کو حکومت میں لانے کی جستجو میں لگے ججز اپنے آئینی دائر کار کی بجاے پارلیمنٹ سمیت دیگر ریاستی اداروں میں مداخلت کو اپنا حق سمجھنے لگے تھے۔ سیاستدانوں کا بھی اس صورتحال میں کوئی آئیڈیل کر دار نہیں۔ جو کچھ بھی کرنا ہے ان ہی لوگوں نے کرنا ہے کوئی اوپر سے نہیں آے گا۔ انہوں نے اچھا کام یہ کیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم پر قومی اتفاق راے پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اس کا یہ پہلو قابل ستائش ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری جمعیت علماے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اس آئینی ترمیم پر اتفاق پیدا کرنے میں بہت مثبت تعمیری کردار ادا کیا۔ جبکہ اپوزیشن کی جماعت تحریک انصاف نے یہ موقع بھی ضائع کردیا۔ تحریک انصاف نے موثر کردار ادا کرنے ، اپنی عملی تجاویز آئینی ترمیم میں شامل کروانے، پارلیمانی عددی طاقت کا درست سیاسی استعمال کر نے کی بجاے صرف سراپہ احتجاج رہنے کی حکمت عملی سیاست پر اکتفا کیا جس کا مستقبل کی سیاست میں مزید انھیں سیاسی نقصان بھگتنا ہوگا۔ ابھی صدر مملکت کے دستخطوں کی سیاہی سوکھی بھی نہ ہوگی کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو اعلی عدلیہ میں چیلنج کرنے کا عندیہ بھی مل گیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن پی ڈی ایم جماعتوں کا آئین وعدلیہ پر حملہ قرار دیتے ہوے انکی کمزور سی آواز بھی سنائی دی ہے کہ وہ اس کو چیلنج کرنے پر ماہرین سے مشاورت کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت بھی احتجاجی تحریک جاری رکھنے کے بیانات جاری رکھے ہوے ہیں۔26 ویں آئینی ترمیم کے بعد نئے چیف جسٹس کی تقرری کے لئے آنے والے دنوں میں 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جاے گی۔ جس میں 8 اراکین قومی اسمبلی اور 4 سینیٹرز شامل ہونگے۔ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی جماعتوں کو متناسب نمائندگی دی جاے گی۔ پارلیمانی کمیٹی تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی کی سفارش کرے گی۔ حتمی منظوری جوڈیشل کمیشن دے گا۔ وزیر اعظم چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے تین دن قبل نئے چیف جسٹس کی تقرری کے لئینام صدر مملکت کو بھجوائیں گے۔ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی 25 اکتوبر 2024 کو رئٹائریمنٹ ہونے جارہی ہے۔ جوڈیشل کمیشن میں بھی پارلیمنٹ کے چار ارکین کی نامزدگی وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کرینگے۔ ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کے علاوہ ججوں کی کارکردگی جانچنے ،ججوں کے احتساب کے نئے نظام کا اطلاق بھی ہو گا۔ اس حوالے سیجوڈیشل کمیشن بااختیار ہوگا۔ اس آئینی ترمیم میں کل 22 شقیں شامل ہیں۔ اسی حوالے سے اے این پی کے سینیٹر ایمل ولی کا کہنا ہے کہ 26 شقیں تھیں۔ لیکن ترمیم کا پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا مسودہ 22 شقوں پر مشتمل ہے۔ نکالی جانے والی چار شقیں جن میں ملٹری کورٹ کی شق بھی تھی پارلیمنٹ میں پیش ہی نہیں ہوئی۔ایمل ولی نے دفاعی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں سخت سزائیں دینے کا مطالبہ بھی کیاہے۔ آئین میں اس تبدیلی ترامیم کے مسودے سے پاکستان میں سودی نظام یکم جنوری 2028 تک مکمل خاتمہ بھی آئینی تقاضہ بن گیا ہے ۔اس میں عالمی اہمیت کے معاملے موسمیاتی تبدیلی بارے بھی شق شامل ہے۔ جس کے تحت صاف ستھری آب و ہوا کو ہر شہری کے بنیادی حقوق میں تسلیم کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں مزید قانون سازی اور اقدامات بھی اٹھائیں گی۔ دنیا میں ماحولیاتی اعتبار سے متاثر ہونے والے سرفہرست ممالک میں پاکستان شامل ہے۔ اپنے شہریوں کو صاف ستھری آپ ہوا میسر ہونے کے حق کو آئینی تحفظ دینے والا نمایاں ملک بھی بن گیا ہے۔ اصل میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے اس آئینی تبدیلی کے حامیوں اور مخالفین کی جانب سے خدشات کا جائزہ بھی لیا جانا چاہئے۔ جیسے اس ترمیم پر اتفاق راے کے بعد مولانا فضل الرحن نے کہا کہ ہم نے کالے سانپ کے دانت توڑ کر اس زہر نکال دیا ہے۔ اس پر پیپلز پارٹی کی سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر شیری رحمن نے کہا کہ اس میں انھیں تو کوئی سانپ دیکھائی نہیں دے رہا۔ بلاول بھٹو زرداری کے ریمارکس ہیں کہ ہم نے اس سانپ کو ختم کر دیا ہے۔ اب جمہوری حکومتوں پر شب خوں نہیں مارا جاسکے گا۔ ماضی میں یہ سانپ جو افتخار چوہدری کی عدالت کی شکل میں منتخب وزراے اعظم حکومتوں پر حملہ آور ہوتا تھا جو پارلیمنٹ کے گردگھومتا تھا۔ اب ذرا دیکھیں کے ترمیم کی منظوری کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم کو مبارکباد دینے کے ساتھ یہ کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان پر خطرے کے منڈلاتے سیاہ بادل چھٹ گئے ہیں۔ محلاتی سازشوں کے نتیجے میں جمہوری منتخب حکومتوں کو گھر بھجوانے کا دور اب ختم ہو جاے گا۔ خو اجہ آصف کا کہنا یہ کہ یہ ووٹ کو عزت دینے کے نعرے پر عمل ہے۔ ووٹ کو عزت عدالتوں میں نہیں پارلیمنٹ میں دی جاتی ہے۔ ان حکومتی اپوزیشن کی تمام شخصیات کے ریمارکس میں خدشہ خطرے کا احساس ضرور محسوس ہورہا ہے۔ اب اس میں کیا خطرناک ہوا ہے یا زہر نکال بھی دیا گیا ہے۔ سانپ کی موجودگی کا احساس تو موجود ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ وزیر اعظم کونسے خطرات منڈلنے اور مولانا فضل الرحمن کس کو سانپ اور زہر نکالنے کی بات کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن والے آئینی ترامیم کو شخصیات سے الجھا رہے تھے۔ ایک کہتا تھا یہ جج نہ ہو تو دوسرا کہتا تھا وہ جج نہ ہو میں کہا کہ شخصیات کے چکر سے نکل کر آئینی ترامیم لائیں۔ ان رہینماوں کے یہ خدشات بے جا ہیں یا اس کے پس پر دہ کوئی ٹھوس وجہ بھی ہے۔ فیصلہ آپ خو د کر سکتے ہیں یا آنے والا وقت مورخ تو کر ہی دے گا

ای پیپر دی نیشن