مضراب رابعہ رحمن
عوام کسی بھی حکومت اور ملک کے لیے کامیابی کا زینہ ہوتی ہے۔ آج تک دنیا بھر میں جتنی بھی حکومتیں ٹوٹیں یا صفحہ ہستی پر کامیابی سے ہمکنار ہوئیں تو عوام کی بدولت۔ عوام حکومت کی آواز ہوتی ہے اور حکومت عوام کی اُمیدوں کا مرکز۔ اگر ہم چھوٹے اداروں میں ہی دیکھیں تو وہاں پر ایک جماعت یا گروپ جب طاقت پکڑتا ہے تو پورے ادارے کو متاثر کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اسی طرح اُس کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی خوبیاں بھی اُن میں کماحقہ موجود ہوتیں ہیں۔ عوام ایسا طبقہ ہے جو ملک میں کسی بھی قسم کی تبدیلی یا شورش کا باعث بھی بنتا ہے اور سب سے پہلے اثر انداز ہوتا ہے۔ عوام کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کیلئے حکومت جو بھی مثبت اقدامات کرتی ہے اُس سے مشکلات خود بخود کم ہو جاتی ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ عوام جس بھی بات پر متفق ہو کر احتجاج کرنے لگے تو حکومت گھٹنے ٹیک دیگی۔ دراصل عوام اور حکومت کے درمیان ایک مطابقت کا معیار مقرر ہونا بہت ضروری ہے۔ جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اُنکے پاس سوچنے، کرنے اور دیکھنے کیلئے بہت کچھ ہوتا ہے۔ حکومت کی عوام کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہوتی بلکہ حکومت تو عوام کو ہمیشہ سے اپنا دایاں ہاتھ سمجھتی ہے۔ مگر کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو کہ عوام پر واضح کرنے کی بجائے اُن سے اُن کا اعتماد اور بھروسہ مانگنے کی کیفیت پیدا کرتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں عوام کا فرض ہے کہ وہ اپنی حکومت پہ اعتماد کریں۔
عوام کا کردار اور چہرے اگر دو ہو جائیں تو حکومت کوبھی اپنی من مانی پالیسیز اور حکمتِ عملی بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ صفحہ ہستی پر ہر جگہ عوام اپنی موجودگی کا احساس بڑی شدو مد سے دلاتی ہے۔ جہاں وسائل بڑھانے کیلئے ہر جگہ اور ہر مقام پر صنعت کار، کسان، تجارت کنندہ، کیمیا دان اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ تگ و دو میں لگے رہتے ہیں وہاں شومئی قسمت کہ مسائل کم کرنے کیلئے ہماری عوام جسے بے انتہا تحمل و صبر کے ساتھ اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے وہ ایسا نہیں کرتے۔ مانا کہ ایک مسئلہ ہو گیا، سڑک پر ایک بس دو طالبعلموں سے ٹکرا گئی اور وہ شدید زخمی ہو گئے اور یہ بھی مانا کہ بس ڈرائیور کی غلطی تھی مگر عوام سے یہاں درخواست یہ ہے کہ اس وجہ سے قریبی مارکیٹ پر پتھراﺅ (مزید نقصان اور اپنے وطن کا نقصان)، بسوں کو روک کر شیشے توڑنا (مزید اپنا نقصان)، سڑک بلاک کر کے ٹائر جلانا نقصان کے علاوہ باقی عوام کیلئے مشکلات کا سامنا۔ اگر یہاں پر ہم یہ دیکھیں ایک تو ہمارے دو طالبعلم زخمی ہوئے وہ بھی ہمارا ہی نقصان ہوا۔ اب معاملہ پولیس میں جانے دیں اور اُس نقصان کے بعد دیگر تمام نقصانات سے بچ جائیں۔ یہ بسیں، یہ دکانیں، یہ سڑکیں ہمارا ہی اثاثہ ہیں۔ دکانوں کو بند کرا دینے سے ایک گھنٹے میں بھی ہماری تجارت کی اوسطاً بہت نیچے چلے جاتی ہے۔ یہ بھی تو ہمارا نقصان ہے۔ یہاں پر عوام کی اپنے وطن، اپنی حکومت، اپنے لوگوں، اپنے اثاثوں سے محبت کا امتحان ظاہر ہوتا ہے۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو جب عوام اس طرح کی توڑ پھوڑ میں ملوث ہوتی ہے تو حکومت اُن کو روکنے کیلئے جو حربے استعمال کرتی ہے وہ پہلے تو مصالحت اور صلح جوئی کے ہی ہوتے ہیں۔ پھر جب اُن کو کامیابی نہیں ہوتی تو بات لاٹھی چارج یا آنسو گیس پہ جا کے رُکتی ہے۔ یہاں پر اب حکومت مجبور ہے اور عوام سے یہ استدعا ہے کہ اپنے جوش اور جذبوں کو استعمال کرتے ہوئے ہوش کے ناخن لینا بہت ضروری ہے۔ جب ایک ہاتھی آشفتہ سر ہوتا ہے تو وہ اپنے پاﺅں تلے بہت سی چیزوں کو روند ڈالتا ہے مگر ایک جاہ جلال سے بھرپور انسان اور اس اندھے ہاتھی میں کچھ تو فرق ہونا لازم ہے۔ اگر یہاں عوام کہے کہ ہم پر ٹیکسز لگائے جاتے ہیں۔ زندگی کی بے یقینی کی کیفیت یہ ہے کہ صبح سو کر اُٹھیں تو بجلی کی قیمتیں بڑھی ہوئی ہوتی ہیں تو یہاں دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت عوام کو اپنا دشمن سمجھتی ہے یا عوام کو بے وجہ تنگ کرنا چاہتی ہے یا اپنے خلاف کرنا چاہتی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی بات حقیقت نہیں رکھتی کیونکہ حکومت کو اتنا احساس بہرحال ہوتاہے کہ عوام کی آواز کو دبانا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے وہ عموماًایسا نوٹس جاری ہی نہیں کر سکتی کہ وہ برداشت نہ کر سکیں جب تک کہ بہت مجبوری نہ ہو۔ بعض اوقات معاملے ایسے ہوتے ہیں کہ کوئی ایکشن لینا پڑتا ہے کہیں ڈالر کی قیمت بڑھ جائے تو مسئلہ، کوئی ایسی چیز امپورٹ کرنی پڑے جس کی ملک میں قلت ہو اور عوام کو ضرورت ہو تو قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ ملک کے قرضے اُتارنا بھی تو ایسا ہی ہے۔ عوام تو حکومت کے سر کا تاج ہوتی ہے اور اُس پر ہیرے تب لگتے ہیں جب وہ اپنے ملک کے مسائل کو سمجھ کر بے جا احتجاج نہیں کرتی اور پھر مشکل میں حکومت کیساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ زیادتی بھی برداشت کرنی پڑے تو کرتی ہے مگر اپنی قربانیوں سے ایک دن فتح عوام کی ہو گی اور عوام کی فتح اپنے ملک اور حکومت کی فتح ہو گی۔