آئینی ترمیم '' بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا'' 

سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com 
سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی
    ملک میں کئی دن تک آئینی ترمیم کا شور رہا اور پھر ہم نے دیکھا کہ آئینی ترمیم کر بھی لی گئی ،یقینا ایک بڑا واقعہ ہے اور ہمیں دیکھنا ہو گا کہ آگے چل کر اس کے کیا اثرات مرتب ہو تے ہیں ،لیکن بہر حال یہ بات تو طے ہے کہ اس ترمیم کا بنیادی مقصد عدلیہ میں تبدیلی لانا تھا ،جیسا کہ ہم نے گزشتہ تحریر میں بات کی تھی کہ ماضی میں بھی ایسی ترامیم کی گئی جن کا مقصد صرف اور صرف عدلیہ کو ہدف بنانا تھا بلکہ 6ویں اور 7ویں ترامیم تو کی ہی ایک چیف جسٹس کو ہٹانے کے لیے تھی۔اگر ماضی کے دریچوں کو کریدا جائے تو افتخار چوہدری کا انکار اور اس کے بعد کے معاملات ابھی تک ہماری یادوں میں تازہ ہے اس کے بعد ملک میں ایک ملک گیر وکلا تحریک چلی جس میں کہ عوام بھی شامل ہو ئے اور اس کے بعد ایک قانون سازی عمل میں آئی جس کے ذریعے یہ طے ہواکہ سینئر ترین جج کو ہی چیف جسٹس لگایا جائے گا۔چاہے اس کی ریٹائر منٹ میں کچھ ماہ ہی کیوں نہ باقی ہو ں۔اس سارے عمل کے دوران کچھ اچھے اور کچھ برے ججز بھی آئے ہو ں گے ،لیکن بہر حال نظام چلتا رہا ،موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بھی اسی نظام کے تحت ہی آئے اور انھوں نے اچھا کام کیا اور از خود اپنے اختیارات پر قدغن لگا کر آئین اور قانون کے مطابق فیصلے دیے۔اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کی ضرورت تھی۔حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت قانون بنایا ،اس قانون کے تحت یہ کہا گیا کہ آئندہ چیف جسٹس کیسز مقرر کرنے کا فیصلہ تنہا نہیں کر پائے گا تین سینئر ترین ججز پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی جو کہ کیسز اور بینچز کے حوالے سے فیصلے کرتی تھی ،یہ قانون سازی چیلنج ہو ئی اور سپریم کورٹ میں چیلنج ہو ئی لیکن اس کیس میں بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمان کا ساتھ دیا اور اپنی جمہوری سوچ کا مظاہر ہ کیا اور یہ قانون سازی سپریم کورٹ سے سے بھی کلین چیٹ حاصل کر سکی لیکن اس کے بعد کیا ہوا ؟ حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے اس قانون میں مزید ترمیم کردی اور اپنے ہی جمہوری فلسفے کو پس پشت ڈال دیا ،اور اس آرڈیننس کے قانون کے حوالے سے تو میں ایک واضح سوچ رکھتا ہوں کہ یہ قانون انگریز کے دور کا ہے جس کو ختم ہو جانا چاہیے کسی بھی پارلیمانی جمہوریت میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کو ترجیح دینا ناقابل فہم اور عوام اور جمہور کی توہین بھی ہے۔
اور اب اس سلسلے کو بند بھی ہو جانا چاہیے۔اس حوالے سے بھی پارلیمان کو ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔کہ وہ حکومت سے یہ اختیار واپس لے لے اور جمہور ی انداز میں قانون سازی کی راہ ہموار کی جائے یہ آرڈیننس کا قانون تو غلامی کی نشانی اور سماراجی ہتھکنڈا تھا جو کہ ہمیں چھوڑ دینا چاہیے۔بہر حال ملک میں اس وقت سیاسی بے چینی پائی جارہی ہے۔سیاسی محاذ آرائی بھی عروج پر ہے عوام بھی واضح طور پر بٹے ہو ئے ہیں اور ایسے ماحول میں جب ملک میں ایک اتحادی حکومت موجود ہے جو کہ ویسے ہی کمزور ہوتی ہے ،اس کے ساتھ ترمیم کی گئی ہے ،جو کہ متنازع ہو سکتی ہے ،سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایسی کمزور حکومت کیسے آئینی ترامیم کا بیڑہ اٹھا سکتی ہے اور انہوں نے کیسے یہ فیصلہ کر لیا کہ یہ آئینی ترمیم یہ کر سکتے ہیں ؟آئینی ترمیم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ایک نہایت ہی مشکل کام ہے جس کو کہ اس لیے مشکل رکھا گیا ہے کہ کوئی بھی حکومت آسانی سے یہ ترمیم نہ کرسکے اور کمزور یا اتحادی حکومتیں تو اس طرف جاہی نہ سکیں بہر حال آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے اور اس کو پورا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوا کرتا ہے ،لیکن میں یہاں پر یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اکثریت کو پورا کرنے کے لیے لالچ دے کر یا پھر ڈرا ددھمکا کر اکثریت پوری کرنا کسی بھی جمہوری حکومت کا وطیرہ نہیں ہو نا چاہیے،اور نہ ہی آئینی ترمیم کے حوالے سے ایسی کوئی مثال ماضی میں ملتی ہے۔ایسے ہتھکنڈوں اور زور زبردستی یا پھر پیسے کے کھیل سے اجتناب کرنا چاہیے۔اس سے جمہوریت پر داغ لگے گا اور ترمیم بھی متنازع ہو سکتی ہے۔
ایسی روایات کو آگے لے کر نہ چلا جائے ،اور ایسی روایات نہ قائم کی جائیں جو کہ کل آنے والی حکومت بھی استعمال کرے اور یہ جو حکومت وہ وہ یقینی طور پر کل کی اپوزیشن ہے اس کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو۔ہمیں دور رس سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے وقتی مفادات کا سوچتے رہے تو کبھی بھی ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے ہیں ،بلکہ ان میں مزید اضافہ ہی ہو گا اور یہ گھمبیر سے گھمبیر ہوتے چلے جائیں گے۔مبینہ طور پر جو ارکان غائب ہو ئے ، اور حکومت کی ایما پر ہوئے یہ کہاں پر ہوتا ہے اور میں میرا سوال یہ ہے کہ تابقیہ یعنی کب تک یہی کچھ ہو تا رہے گا۔بہر حال ہمیں اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے ،اگر اندرونی طور پر متحد ہو ں گے تو ہی بیرونی خطرات کا سامنا بھی کر سکیں گے ،افغان سر حد پر بھی اس وقت صورتحال خراب ہے ،بلکہ کہنا چاہیے کہ تشویش ناک ہے ،دہشت گردی ہو رہی ہے ،دخل اندازی کا بھی معاملہ ہے ،طالبان حکومت دخل اندازی کا معاملہ ہے الزامات دونوں طرف سے لگ رہے ہیں ساری تفصیل میں جائے بغیر یہ کہوں گا کہ اگر ان کو روکنا مقصود ہے تو اس کو خارجی ایشو بنانے سے یا خارجی کہنے سے مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ہمیں افغان حکومت کی شرائط پر ہی ان لوگوں سے جان چھڑانا ہو گی یہی طریقہ ہے ان سے جان چھڑانے کا ،اگر اتفاق رائے کے بغیر طاقت استعمال کی گئی تو خدا نخواستہ حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں ،ہمیں سقوط ڈھاکہ کی تاریخ کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے،اور بہتر انداز میں معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن