گوشہ تصوف… ڈاکٹر ظہیر عباس قادری الرفاعی
drzaheerabbas1984@gmail.com
دھلی میں سرکار خواجہ نظام الدین کے 721 ویں دو روزہ عرس مبارک کی تقریبات اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام پزیر ہوگئیں۔ پاکستان' بنگلہ دیش ' افغانستان' قازنستان' برطانیہ اور امریکہ سمیت دنیا بھر سے محبان خواجہ کی شرکت اور اجتماعی دعا میں یک زبان ہو کر امت مسلہ کی دعاوں نے ماحول کو معطر زدہ اور یادگار بنا دیا۔ اللہ کریم انکی دعاو¿ں کے طفیل فلسطین ، کشمیر اور لبنان کے مظلوم اور مجبور مسلمانوں کو عزت وتکریم اور آزادی کی روشنی عطا کرے آمین۔حضرت محبوب الہی سلسلہ چشتیہ کے چوتھے ماھتاب ہیں جن کے پیغام کی کرنیں آج بھی اطراف میں دین حق پھیلانے کا سبب ہیں۔ ہندوستان میں اب بھی لاکھوں ہندو' سکھ ، پارسی اور غیر مسلم آپ کی درگاہ پر حاضری دے کر قلب سکون حاصل کرتے ہیں۔حضرت نظام الدین اولیاء 20 برس کی عمر میں حضرت بابا گنج شکر کے مرید ہوئے۔ 24 برس کی عمر میں تخت خلافت پر مامور ہوئے اور پھر 66 برس تک ہندوستان کی روحانی شہشناہی کا منصب آپ کے سر رہا۔اصل نام تو سیّد محمد تھا مگر عبادت، ریاضت، علم و فضل، تقویٰ اور پرہیز گاری کے باعث سلطان المشائخ، سلطان الاولیائ، شیخ المشائخ، نظام الدین اولیاء اور محبوبِ الٰہی کے القاب سے مشہور ہوئے۔ والدہ محترمہ کی توجہ کے فیضان سے نوعمری میں ہی تمام علومِ دین، تفسیر، حدیث اور فقہ پر دسترس حاصل کر لی تھی۔ حضرت نظام الدین اولیا کو بابا فرید گنج شکر سے بے حد عقیدت تھی اور ان کی بیعت حاصل کرنے کے لئے اکثر بے تابی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ آخر کار شیخ نجیب الدین متوکل نے آپ کو بابا فریدسے ملوایا اور 705 ہجری میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا شرف حاصل کیا۔حضرت محبوب الٰہی کو سماع کا بے حد شوق تھا ، بچپن ہی سے بھوکا رہنے کے عادی تھے۔ کئی کئی دنوں کے فاقے برداشت کر لیتے تھے مگر کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا تھا۔ بچپن سے تربیت ہی ایسے ماحول میں پائی تھی کہ بڑے سے بڑے بادشاہ کے دربار میں جانے کے لئے رضا مند نہ ہوتے تھے۔ ایک دفعہ قطب الدین بادشاہ نے آپکو اپنے دربار میں طلب کیا تو آپ نے یہ کہہ کر جانے سے انکار کر دیا کہ فقیر بادشاہوں کے ہاں نہیں جایا کرتے کیونکہ فقیروں کا بادشاہوں کے ہاں کوئی کام نہیں ہوتا۔ آپ کا انکار سن کر وہ غصہ میں آ گیا اور زبردستی دربار میں حاضر ہونے کے احکامات جاری کئے لیکن پھر بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس واقعہ کے چند دن بعد ہی بادشاہ اپنے غلام کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ مغلیہ بادشاہوں نے بھی آپ کو مال و دولت، جائیداد اور قیمتی سے قیمتی تحائف اور نذرانے بھیجے مگر آپ نے ان کو ٹھکرا دیا۔ آپ سادہ زندگی بسر کرنا پسند فرماتے تھے۔ جو کی روٹی اور ابلی ہوئی ترکاری ان کی مرغوب خوراک تھی۔ آپ نے کبھی مرغن غذا یا پرتکلف کھانا نہیں کھایا۔ سادہ خوراک کھاتے وقت بھی اکثر اوقات رو پڑتے تھے اور فرمایا کرتے تھے نہ جانے کتنے لوگ بھوکے سو گئے ہوں گے۔؟سردیوں میں ان غریبوں کو یاد کر کے اداس ہو جایا کرتے تھے جن کے پاس سردیوں سے بچنے کے لئے گرم کپڑے نہیں تھے۔ خیرات و سخاوت میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔ آپ اخلاق حمیدہ اور عالیٰ ظرفی میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ ایک دفعہ سلطان علاو¿ الدین خلجی نے 500 اشرفیوں کا نذرانہ خدمت میں پیش کیا۔ اس میں سے ایک فقیر نے آدھی اشرفیاں مانگیں آپ نے پوری تھیلی اس کے حوالے کر دی اور فرمایا لے لو یہ سب تمہاری ہیں۔آپ کے اقوال زریں آج بھی مشعلِ راہ اور منارہ نور ہیں۔ آپ نے فرمایا "پہلے اللہ کو پہچانو، جب پہچان لو گے تو تمہیں سوچنا چاہئیے کہ تم کون ہو، کہاں سے آئے ہو اور کہاں جانا ہے۔اس دنیا میں کس لئے آئے ہو اور اللہ نے تمہیں کس لئے پیدا کیا ہے"۔ آپ نے فرمایا " مکروفریب، دھوکہ دہی، فتنہ پردازی یہ سب شیطانی صِفات ہیں، ان کو اپنانے والا کبھی بھی معرفت الٰہی نہیں پا سکتا"۔ انہوں نے فرمایا" معرفت الٰہی سے قلب روشن ہو جاتا ہے اور اعلیٰ انسانی صفات ا?جاگر ہوتی ہیں "۔ انہوں نے فرمایاکہ" اصل ریاضت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق خود کو ڈھال لیا جائے۔ فرمایا " اللہ کے راستوں پر چلنے کے لئے آرام و سکون کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ اپنے دل پر ہمیشہ قابو رکھنا چاہئیے۔جو شخص ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائے وہ سیدھی راہ سے کبھی بھٹک نہیں سکتا"۔ ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اپنا مشن مکمل کرنے کے بعدآپ اصلی منزل کی طرف18 ربیع الثانی725 کو اس دارِ فانی سے رحلت فرما گئے۔ آپ کی نمازِ جنازہ حضرت رکن الدین ملتانی نے پڑھائی، غیاث پور شاہ جہاں آباد میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ آپکا مزار ہر خاص و عام کی زیارت گاہ ہے!!