جمعة المبارک‘21 ربیع الثانی 1446ھ ‘ 25 اکتوبر 2024

ہمارا جج اور تمہارا جج کا کھیل اب بند کر دیں‘ شیر افضل مروت۔
شیر افضل مروت جو بھی ہیں‘ جیسے بھی ہیں، مگر انکی ہر بات اور تقریر کو سوشل میڈیا پر بہت شوق سے دیکھا اور سنا جاتا ہے۔ انکی گلابی اردو کرخت لہجہ اور سپاٹ چہرہ عوامی جلسے سے لے کر قومی اسمبلی کے فلور تک جب وہ بول رہے ہوتے ہیں تو ایک سماں باندھ دیتے ہیں۔ بے شک وہ بڑے سلجھے ہوئے نہ سہی‘ مگر ایک عوامی مقرر ضرور ہیں۔ انکی شعلہ بیانی بھی شگفتگی کا احساس لئے ہوتی ہے۔ انکی زبان درازی کہہ لیں یا ادھر ادھر کی ہانکنے کی وجہ سے کئی بار انکے بولنے پر خود ان کی پارٹی نے پابندی لگائی۔ مگر سچی بات تو یہ ہے کہ وہ اپنے کپتان کی بھی نہیں سنتے جہاں چاہتے ہیں شارٹ لگاتے ہیں۔ مرضی سے گیند کراتے ہیں۔ جو جی میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں۔ ایک بار تو انکی پارٹی رکنیت بھی معطل ہو چکی ہے مگر کپتان کو علم ہے کہ لوگ انہیں بہت چاہتے ہیں۔ وہ لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لئے ابھی تک ناصرف پارٹی میں ہیں بلکہ قومی اسمبلی کے ممبر بھی ہیں۔ انکی اپنی پارٹی کے عہدیدار اور رہنما بھی انکے منہ نہیں لگتے۔ ان سے خوف کھاتے ہیں۔ بخدا ان جیسا حکومتی اتحاد کے پاس ایک بھی مقرر نہیں ورنہ غضب کا رن پڑتا۔ گزشتہ دنوں اسمبلی میں انہوں نے جس طرح افتخار چودھری‘ عطاءبندیال‘ منصور علی شاہ‘ قاضی عیسیٰ اور موجودہ نئے نامزد چیف جسٹس کے حوالے سے بات کی تو انکی تقریر سن کر پوری اسمبلی چونک اٹھی۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا۔
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جاناکہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
سو ان سے زیادہ لوگ لذتِ تقریر میں کھو گئے‘ قہقہے تھے کہ بار بار گونجتے رہے۔ سنجیدہ چہروں پر بھی مسکراہٹ آگئی۔ مروت نے بڑے پیار سے چاﺅ کے ساتھ سچ کہا کہ وہ تمہارا جج اور یہ ہمارا جج کے تاثر نے ایک سادہ معاملے کو بھی انا اور پسند ناپسند کی بھینٹ چڑھا کر متنازعہ بنایا جاتا ہے۔ بات تو انکی درست ہی ہے۔ افتخار چودھری تحریک انصاف کے پسندیدہ جج بنے تو قاضی فائز عیسیٰ کو حکومت کی پسندیدہ شخصیت قراد دیا جانے لگا۔ جسٹس منصور کو تحریک انصاف والوں نے اتنا اپنا سگا بنانے کی کوشش کی کہ انکے قاضی القضاہ بننے کی راہ بھی مسدور کردی۔ حکومت بھی چوکنا ہوگئی اور اب جسٹس یحییٰ آفریدی کو تحریک والے ان کا قاضی کہہ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس کی وجہ سے عدلیہ تقسیم ہوئی لگتی ہے۔ حالانکہ قاضی صرف قاضی ہوتا ہے‘ اسے وہی رہنا چاہیے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ وہ نہ ادھر کا ہو نہ ادھر کا۔ سب اسی کی نظر میں برابر ہوں۔ 
 راولپنڈی میں فوٹو شوٹ کے بعد انگلینڈ کے کھلاڑیوں نے کرسیاں اٹھا کر گراﺅنڈ سے باہر رکھیں۔
اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اگر اعلیٰ تربیت نہیں تو جان لیں کہ ساری کاوش ضائع گئی اور ساری محنت بھی اکارت گئی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ تو بے شمار قدم قدم پر مل جاتے ہیں مگر اعلیٰ بہترین تربیت والے ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔ وہی 
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں 
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
والی بات سامنے آتی ہے۔ کاش! ہمارے بڑے بھی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت کا بھی اہتمام کرتے تو بحیثیت قوم آج ہماری بھی بہت عزت ہوتی اور احترام میں بھی اضافہ ہو تا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اچھے خاصے پڑھے لکھے بھی اچھی تربیت سے محروم نظر آتے ہیں۔ اسکے برعکس دیگر خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں دیکھ لیں تعلیم واجبی ہی کیوں نہ ہو ایک دوسرے کا احترام خاص کر بیماروں‘ بزرگوں اور بچوں کے علاوہ اساتذہ کا تو بے مثال ہے۔ وہ اپنے کام خود کرتے ہیں‘ بچپن سے ہی انہیں کام خود کرنے‘ قانون کا احترام کرنے کا سبق یاد کرایا جاتا ہے۔ اس کا ثبوت گزشتہ روز راولپنڈی سٹیڈیم میں انگلینڈ کے کھلاڑیوں کا نیٹ پریکٹس کے بعد فوٹو شوٹ تھا‘ جس میں کرسیاں لگائی گئیں‘ جب فوٹو شوٹ ختم ہوا تو ایک ایسا منظر سامنے تھا جس نے اعلیٰ تعلیم ہی نہیں‘ اعلیٰ تربیت کا نمونہ بھی ہم سب کو دکھایا۔ فوٹو شوٹ کے بعد کھلاڑیوں نے اپنی اپنی کرسی اٹھائی اور جاکر گراﺅنڈ سے باہر رکھ دی۔ ہمارے ہاں ایسا کرنا شاید خلاف شان سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ ہمیں بچپن سے ہی عادت ڈالی جاتی ہے کہ ہم پانی کیلئے بھی خود نہیں اٹھتے۔ دوسروں کو کہہ کر منگواتے ہیں۔ کرسی اٹھانا‘ دری یا چادر بچھانا‘ کسی کام میں دوسرے کی مدد کرنا تو ہماری سرشت میں ہی شامل نہیں۔ ہم اپنے ہاتھ سے کام کرنا توہین سمجھتے ہیں۔ کاش! ہمارے ہاں بھی بچوں کی تعلیم کے ساتھ انکی اچھی تربیت کا بھی بھرپور اہتمام کریں تو ہمارا معاشرہ بھی بدل سکتا ہے۔ یہاں اچھی اچھی عادتیں اور روایتیں جنم لے سکتی ہیں۔ انگریزوں کی نقالی میں ہم نے کرکٹ سیکھنے کیلئے جان لگا دی‘ کاش! ان جیسا بننے کیلئے اتنی ہی کوشش کریں اور اچھی تربیت بھی سیکھیں۔ 
کشمیر کبھی پاکستان نہیں بنے گا‘ فاروق عبداللہ کی بیہودہ بکواس۔
سیانے کہتے ہیں ”اصل ذات سے خطا نہیں اور کم ذات سے وفا نہیں“۔ یہ بات ایویں شیویں نہیں کہی گئی۔ اسکے پیچھے صدیوں کا تجربہ بول رہا ہوتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے طول و عرض میں آج بھی کشمیر بنے گا پاکستان کی صدائیں سنائی دیتی ہیں۔ مگر وہی ”دیدہ ور“ کواگر سورج نظر نہ آئے“ تو اس میں سورج کی نہیں‘ اس اندھے کی آنکھوں کا قصور ہے۔ تو جناب! اب اگر غدار ابن غدار بھارت کی چاکری میں خوش اپنے باپ اور اپنے بعد اپنے بیٹے کی کرسی پکی کرنے کیلئے پہلے کی طرح بھارتی حکومت کے آگے سجدہ ریز ہو رہا ہے اور اسے کچھ سنائی یا دکھائی نہیں دیتا تو یہ اسکے خبث باطن کی نشانی ہے۔ شیخ خاندان کی یہی روایت ہے۔ شیخ عبداللہ نے پوری قوم کو بھارت کی جھولی میں ڈال کر وزارت اعلیٰ کی کرسی حاصل کی‘ پھر یہی نوکری فاروق عبداللہ کرتے رہے‘ اب انکی تیسری پیڑھی یعنی عمر فاروق یہی چاکری کر کے اقتدار کےمزے لوٹ رہے ہیں۔ الیکشن سے قبل یہ غدار کشمیریوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے پاکستان کیخلاف ایک لفظ ادا نہیں کرتے تھے، بلکہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کو مل کر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے تھے اور بھارتی آئین سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد تو کف اچھال اچھال کر بھارت کی بدتعریفی کرکے کشمیریوں کا دل خوش کرنے میں مصروف رہے تاکہ ووٹ ملیں۔ اب جیسے ہی انکے بیٹے وزیراعلیٰ بنے‘ یہ سگِ پاگل کی طرح یکدم پاکستان کیخلاف باتیں کرکے بھارت کو خوش کرنے میں لگ گئے ہیں۔ سارا کشمیر پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتا ہے‘ سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں‘ جس کی اصل تکلیف بھارت اور شیخ خاندان کو ہوتی ہے۔ 
1989ءسے لے کر 2020ءتک انکی جرا¿ت نہیں تھی کہ عوام کا سامنا کرتے اور ایسا اول فول بکتے‘ جیسا اب خللِ دماغ کی وجہ سے کہہ رہے ہیں‘ ویسے مجاہدین نے نجانے کیوں اس خاندان کو چھوڑا۔ انکے بوجھ سے کشمیر کی مقدس زمین کو آزاد کیوں نہیں کرایا۔ یہ تھوتھا چنا اب باجے گھنا بن کر نجانے خود کو کون سا مرد میدان ثابت کرنا چاہتے ہیں۔وہ شاید بھول رہے ہیں کہ میرجعفر اور میرصادق کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے ننگ وطن تو ہو سکتے ہیں‘ مرد میدان کبھی نہیں بن سکتے۔ وہ چاہے جتنا بھارت کے بوٹ پالش کریں‘ ہمیشہ مشکوک و غدار ہی کہلائیں گے۔ وہ بھول رہے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں‘ شیخ خاندان جیسے دوسرے بکاﺅمال صرف زر خرید غلام ہی کہلاتے ہیں۔ سردی کے آتے ہی گیس کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ میں اضافہ۔
یہ تو اب ہماری روٹین میں شامل ہے کہ گرمی آتے ہی ہمیں بجلی کے بلوں میں اضافہ کی وجہ سے کرنٹ لگنا شروع ہو جاتے ہیں‘ اسی طرح سردی آتے ہی گیس کے بلوں میں اضافہ ہمارے گھر کو جلانے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ سو دیکھ لیں ابھی سردیوں نے ہمارے دروازے پر دستک ہی دی تھی کہ سوئی گیس والوں کی آنکھ کھل گئیں اور انہوں نے تین ماہ کی گہری نیند سے بیدار ہو کر پہلا کام جو کیا وہ یہ ہے کہ گیس کی لوڈشیڈنگ‘ وہ بھی غیراعلانیہ شروع کر دی ہے۔ اس بار تو گرمیوں میں بھی گیس کی کمی اور غائب رہنے کی شکایات عام تھیں۔ اب سردی آتے ہی وقفے وقفے سے گیس غائب ہونے لگی ہے۔ گھریلو خواتین کھانا پکانے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں‘ اسکے ساتھ ایک اور بڑی مصیبت یہ ہے کہ ایل پی جی کی قیمت بھی آسمان کو چھو رہی ہے۔ بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے اب ایل پی جی کا سلنڈر خرید کر کام چلانے والے بھی حیران ہیں کہ اب کیا کریں گے۔ سوئی گیس کا محکمہ گیس کی قیمت میں اضافہ کرتے ہوئے تو ذرا بھی نہیں شرماتا۔ اسے بھلا گیس کی لوڈشیڈنگ سے کون سی شرم آئیگی۔ یہ لوگ تو بس قیمت میں اضافہ پر توجہ دیتے ہیں اور صارف کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں جو گیس کی قیمت میں اضافہ بھی برداشت کرتے ہیں اور گیس کی لوڈشیڈنگ بھی۔ لوگ ان چیزوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ وہ تو سو پیاز اور سو جوتے والی کہاوت کو درست ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسا نہ کریں تو اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ بس خاموشی سے بھاری بل جمع کراتے ہیں کیونکہ ایسا نہ کریں تو کنکشن کٹنے کا ڈر الگ ستاتا ہے۔ جسے دوبارہ لگانا ایک الگ درد سر اور خرچہ ثابت ہوتا ہے اس لئے چپ چاپ لٹتے ہیں۔ اب تین چار ماہ گیس کی آنکھ مچولی جاری رہے گی‘ قوم کو گیس میسر نہیں ہوگی اور بھاری بل باقاعدگی سے موصول ہوتے رہیں گے۔ یوں گھروں میں ایک نئی تلخی جنم لے گی۔ صبح کا ناشتہ کئے بغیر بچے سکول‘ کالج اور میاں دفتر یا دکان پر جائیں گے اور خاتون خانہ سوئی گیس والوں کی خانہ خرابی کی بددعائیں دیتی نظر آئیں گی۔ یہ آہ و زاری اور بددعاﺅں کا سیزن اپریل تک جاری رہے گا۔ ہمیشہ کی طرح نہ سوئی گیس والے لوڈشیڈنگ ختم کریں گے نہ ہی لوگوں کی بددعائیں رنگ لائیں گی۔

ای پیپر دی نیشن