ایسا کم ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ پارلیمان کے کسی ایوان میں عوامی مسائل باقاعدہ توجہ اور بحث کا موضوع بنے ہوں۔ عوامی نمائندگان کہلانے والے پارلیمان کے ایوانوں میں عام طور پر اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ہی کوششیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ بدھ کو قومی اسمبلی میں ارکان نے وقفہ سوالات کے دوران روز افزوں مہنگائی پر تشویش کا اظہار کیا۔ اجلاس میں وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے کہا ہے کہ وزیراعظم خود مہنگائی میں کمی کے اقدامات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اس موقع پر رکن اسمبلی سید فضل علی شاہ نے کہا کہ بجلی سستی کردیں تو علی پرویز ملک نے کہا کہ اس پر وزیراعظم نے ٹاسک فورس بنائی ہوئی ہے، آپ نے بہتری آتی دیکھی ہے۔ شازیہ ثوبیہ نے افراطِ زر سے متعلق سوال کرتے ہوئے کہا کہ پھل، سبزیاں، دوائیاں، ساری چیزیں مہنگی ہو رہی ہیں، اس پر علی پرویز ملک نے کہا کہ مہنگائی پچھلے سال 38 فیصد پر تھی، اب 7 فیصد پر آگئی ہے۔ مہنگائی بڑھنے کی رفتار کم ہوگئی ہے۔ برآمدات بڑھانے کے اقدامات سے متعلق سوال پر پارلیمانی سیکرٹری برائے تجارت ذوالفقار علی بھٹی نے کہا کہ ہمارا ہدف ہے کہ برآمدات کو بڑھائیں اور امپورٹ کو کم کریں۔ اس حوالے سے علی پرویز ملک نے کہا کہ پاکستان کو اپنی برآمدات بڑھا کر پائیدار ترقی کی طرف سفر کرنا ہے۔ صد شکر کہ عوامی نمائندگان کو عوام کی مشکلات کا بھی احساس ہوا ورنہ وہ صرف اپنی مراعات کے لیے ہی یکجہت نظر آتے ہیں۔ اگر انھیں عوامی مشکلات کا ادراک ہو ہی گیا ہے تو اس سلسلے میں اٹھائی گئی یہ آواز صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ یا عوام کو طفل تسلی دینے کے لیے ہی نہیں ہونی چاہیے اور حکومتی ارکان کی طرف سے جو کچھ کہا جارہا ہے اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ٹھوس اقدامات بھی سامنے آنے چاہئیں۔ جب تک عوام کو حقیقی ریلیف نہیں ملتا اسمبلیوں میں ایسے بحث مباحثے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔