عدالتی فعالیت اور اختیارات سے تجاوز

Oct 25, 2024

عاطف محمود ۔۔ مکتوب آئرلینڈ

عدلیہ کو اکثر جمہوریت کی عمارت کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے، جو کہ آئین اور عوام کے حقوق کی محافظ ہوتی ہے۔ تاہم، سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹسز، جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس عمر عطا بندیال کے دورِ اقتدار میں عدلیہ کے کردار، اقدامات اور دائرہ کار پر بحث اور تنازعے کو ہوا ملی۔ جسٹس ثاقب نثار کے دور میں ایک غیر معمولی حد تک عدالتی فعالیت دیکھنے میں آئی‘ جو پہلے کم ہی دیکھنے میں آئی تھی۔ ان کے دور میں سپریم کورٹ نے صحت اور ماحول جیسے موضوعات پر سوو¿ موٹو اختیارات کا استعمال کیا، جس کی وجہ سے قانون کی تشریح اور حکمرانی کے درمیان حد واضح نہ ہو سکی۔ اس نے جمہوریت کے لیے ضروری طاقت کی تقسیم پر سوالات اٹھائے، اور یہ شبہات پیدا ہوئے کہ شاید جسٹس نثار قانون کی تشریح کے بجائے حکمرانی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ان کے اقدامات سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ عدلیہ صرف قانونی تشریح کرنے کی بجائے حکومتی اختیارات میں مداخلت کر رہی ہے، جس نے عوام کے اعتماد کو مجروح کیا۔ عدلیہ کے سب سے متنازعہ اقدامات میں سے ایک جسٹس ثاقب نثار کا دیامر بھاشا اور مہمند ڈیمز کے لیے فنڈ ریزنگ مہم میں حصہ لینا تھا۔ چیف جسٹس کے منصب کے لیے یہ ایک انتہائی غیر روایتی طرز عمل تھا کہ انہوں نے اس مہم کو بڑی شدت سے آگے بڑھایا اور عوام سے براہ راست عطیات کی اپیل کی۔ بہت سے لوگوں نے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام عدلیہ کے منصب کی شایانِ شان نہیں تھا، اور اس طرح کے اقدامات کی مناسبیت اور شفافیت پر سوالات اٹھائے گئے۔ ناقدین نے استفسار کیا کہ آیا یہ اقدام عدالتی اصولوں کی راہ سے انحراف نہیں ہے؟
جسٹس عمر عطا بندیال کی مدت جو ان کے پیشرو کے بعد آئی‘ عدلیہ کو تنازعات کی پیچیدہ لہروں سے دور لے جانے میں ناکام رہی، بلکہ یہ رجحانات اسی طرح برقرار رہے۔ جسٹس بندیال کی سیاسی نوعیت کے مقدمات، بشمول ایک مخصوص سیاسی جماعت سے متعلق معاملات میں مداخلت نے عدلیہ کی غیر جانبداری پر شکوک و شبہات کو مزید تقویت دی۔ ان کے فیصلوں کو بہت سے لوگوں نے سیاسی ترجیحات سے متاثر سمجھا، جس سے عدالت کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھائے گئے۔ ان کی مدت کے دوران ججز کے درمیان داخلی اختلافات نے ادارے کی یکجہتی اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی کوششوں کو مزید متاثر کیا، جس کے نتیجے میں عوام کے اعتماد میں بھی کمی آئی۔ جسٹس بندیال کے عدالتی تقرریوں سے متعلق نقطہ نظر نے ان پر کڑی تنقید کی راہیں کھول دیں، کیونکہ بہت سے ناقدین نے اسے اس باوقار عہدے کی شفافیت اور انصاف کے معیار سے عاری سمجھا۔ ان تقرریوں کو اکثر ذاتی ترجیحات کے زیر اثر سمجھا گیا، بجائے اس کے کہ وہ مکمل طور پر قابلیت کی بنیاد پر ہوں۔ اس طرح کی رائے عدلیہ کی ساکھ پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور اس ادارے کی خودمختاری اور غیر جانبداری کے بارے میں خدشات کو تقویت دیتی ہے۔
یہ شبہات اور سوالات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عدلیہ کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے شفافیت اور غیر جانبداری کا کلیدی کردار ہے، اور اس پر کسی بھی طرح کا سوال عدالتی ادارے کی سالمیت اور عوامی اعتماد کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جسٹس بندیال کی جانب سے ازخود نوٹس کے استعمال کو ان کے پیشرو کے مقابلے میں اگرچہ کم دیکھا گیا، مگر اس کا استعمال مختلف سیاسی مضمرات والے معاملات میں متضاد اور منتخب سمجھا گیا۔ مبصرین اور ناقدین نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے یہ اقدامات بعض خاص مفادات سے ہم آہنگ مقدمات میں مداخلت کا رجحان ظاہر کرتے ہیں، جس کی وجہ سے عدلیہ کی غیر جانبداری پر شبہات پیدا ہوتے ہیں اور غیر جانبدارانہ فیصلوں کی ساکھ کو داغدار کر دیتے ہیں۔ یہ عدم تسلسل اور انتخابیت، خاص طور پر سیاسی مقدمات میں، اس بات کی علامت سمجھی گئی کہ عدلیہ بعض معاملات میں امتیاز برت رہی ہے، جس سے عوام میں اس کے غیر جانبدار ہونے پر سوالات اٹھنے لگے۔ اس قسم کے اقدامات نہ صرف عدلیہ کے وقار کو مجروح کرتے ہیں بلکہ عدالتی نظام سے وابستہ تمام افراد کے اعتماد کو بھی متزلزل کر دیتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے سیاسی اور انتظامی معاملات میں مداخلت کے دوران اٹھائے گئے اقدامات نے عدلیہ کو ایک غیر جانبدار ثالث کے بجائے ایک پارٹی کی حیثیت سے دیکھے جانے کا خطرہ پیدا کر دیا۔ اس طرح کا تاثر بلاشبہ نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ وسیع تر عدالتی نظام کی سالمیت پر عوام کے اعتماد کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ یہ اعتماد کا زوال عدلیہ کی قانونی حیثیت اور اتھارٹی کے بنیادی ستونوں کو چیلنج کرتا ہے، اور عدلیہ کے ذمہ دار ادارے کے طور پر جمہوریت کے ستونوں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ معروف قانونی ماہرین کی رائے اور رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ کا سیاسی مفادات کے ساتھ نظر آنے والا میل ملاپ، اس کے بیرونی دباﺅ کے زیر اثر ہونے کے تاثر کو جنم دیتا ہے، جو عدلیہ کی آزادی پر سوالیہ نشان بناتا ہے۔ ایسے حالات میں، عدلیہ کو نہ صرف اپنے منصب کا وقار برقرار رکھنا ہوتا ہے بلکہ عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے اس تاثر کو زائل کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے فیصلے کسی بھی بیرونی دباﺅ یا سیاسی وابستگی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یہی وہ اصول ہیں جو عدالتی نظام کی ساکھ اور جمہوری اداروں کی بقا کے لیے ناگزیر ہیں۔
قانون کی حکمرانی، جو جمہوریت کی بنیادی اصول ہے، یہ تقاضا کرتی ہے کہ تمام افراد اور ادارے، بشمول عدلیہ، جوابدہ ہوں اور اپنے مقرر کردہ دائرے میں کام کریں۔ تاہم، جب عدلیہ کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے، تو اس سے نہ صرف اس کے اپنے اختیار میں کمی واقع ہوتی ہے، بلکہ عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد بھی مجروح ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے اقدامات اپنے عدالتی اختیار سے آگے بڑھ کر دوسرے شعبوں تک پھیلتے ہیں تو انہیں کبھی کبھار ایسا تصور کیا جاتا ہے کہ وہ ایگزیکٹو اور قانون ساز اداروں کے جائز اختیارات کو کمزور کر رہے ہیں۔ یہ حد سے تجاوز، طاقت کے نازک توازن کو بگاڑتا ہے، اور ایک ایسی خطرناک صورت حال پیدا کرتا ہے جہاں عدلیہ، حکومت کے اضافی اختیارات کو روکنے کی بجائے، اپنے دائرہ اختیار سے باہر کے معاملات میں مداخلت کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسا عدم توازن، جمہوری ڈھانچے کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ نتیجتاً، یہ اقدامات جمہوری عمل اور عدلیہ کے غیر جانبدارانہ کردار کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں، جو جمہوری معاشرے میں انصاف اور عوامی اعتماد کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہیں۔
 جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس عمر عطا بندیال کے ادوار نے پاکستان کی عدالتی تاریخ پر ایک ناقابلِ فراموش نقش چھوڑا ہے۔ ان کے اقدامات، اگرچہ کبھی کبھار مثبت نتائج کا سبب بھی بنے، لیکن ساتھ ہی ایک ایسے تاثر کو فروغ دیا کہ سپریم کورٹ نے اپنے آئینی دائرے سے تجاوز کیا ہے اور اس عمل میں وہ انصاف، غیر جانبداری، اور خودمختاری کے بنیادی اصولوں کو خطرے میں ڈال بیٹھا ہے، جن پر اسے ہر حال میں قائم رہنا چاہیے تھا۔
ایسے حالات میں یہ بے حد ضروری ہے کہ عدلیہ اپنی قابلِ احترام حیثیت کو دوبارہ حاصل کرے، اور اس کے لیے آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کرے، بجائے اس کے کہ وہ ایگزیکٹو اور مقننہ کے معاملات میں الجھ جائے۔ صرف اسی صورت میں سپریم کورٹ اپنے حقیقی مقصد کو پورا کر سکتی ہے، یعنی آئین کی ناقابلِ تسخیر محافظ بننے اور عوام کے حقوق و آزادیوں کی ثابت قدمی سے حفاظت کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے، اور یہ سب انصاف اور جمہوریت کے جذبے کے تحت ہی ممکن ہے۔ آخر میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدلیہ میں خدمات سرانجام دینے والے افراد کو عوامی ٹیکس کے پیسے سے مراعات اور پنشنز کا فائدہ حاصل ہوتا رہنا چاہیے، یا پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کو ان مراعات پر دوبارہ غور کرنا چاہیے، خاص طور پر اگر تحقیقات میں کوئی بدعنوانی یا اختیارات کے ناجائز استعمال کے شواہد ملتے ہیں؟ اس پہلو پر غور و فکر وقت کی ایک اہم ضرورت ہے تاکہ عوام کا اعتماد عدلیہ پر برقرار رہے۔ مجموعی طور پر، عدلیہ کا احترام اور حمایت کی جانی چاہیے، مگر کسی بھی قسم کی غلط کاری کے ثبوت سامنے آنے پر، عدلیہ کے اراکین کو حاصل مراعات کا جائزہ لینا لازمی ہو جاتا ہے تاکہ احتساب کو یقینی بنایا جا سکے اور عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد برقرار رہے۔

مزیدخبریں